افغانستان میں بدامنی کے عوامل کیا ہیں؟

عبید تنویر حال ہی میں ایک بین الاقوامی این جی او نے افغانستان کو دنیا میں چوتھے نمبر پر غیرمحفوظ ملک قرار دیا تھا، جہاں بدامنی اور غیریقینی صورت حال ہے۔ افغانستان کے شہریوں پر مغربی اور امریکی خوف کا سایہ منڈلاتا رہتا ہے اور وہ آزادانہ طور پر سفر نہیں کر سکتے ہیں۔ امن […]

عبید تنویر

حال ہی میں ایک بین الاقوامی این جی او نے افغانستان کو دنیا میں چوتھے نمبر پر غیرمحفوظ ملک قرار دیا تھا، جہاں بدامنی اور غیریقینی صورت حال ہے۔ افغانستان کے شہریوں پر مغربی اور امریکی خوف کا سایہ منڈلاتا رہتا ہے اور وہ آزادانہ طور پر سفر نہیں کر سکتے ہیں۔ امن اور جنگ کے نام سے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم نے اپنی سالانہ رپورٹ میں دنیا کے 160 ممالک میں سکیورٹی کے لحاظ سے صورت حال کی تحقیقات کی ہیں، جن میں عراق، شام، افغانستان اور سوڈان ایسے ممالک شامل ہیں، جہاں بدامنی جاری ہے اور امن کے لیے نقصان دِہ واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، لیکن اس رپورٹ میں آسٹریلیا اور آئس لینڈ کو دیگر ممالک کے مقابلے میں پُرامن قرار دیا گیا ہے۔

یہ سروے ایک مغربی تنظیم نے کیا ہے۔ مغربی ادارے اور سیاست دان اکثر اُن ممالک کو غیرمحفوظ اور غیرمستحکم قرار دیتے ہیں، جہاں امریکا اوریورپی ممالک کے شہریوں کو سفر اور آمد و رفت کے دوران مسائل اور مشکلات سے دوچار ہونا پڑے  ان کے اہداف اور مفادات کو خطرات لاحق ہوں۔ وہ ایسی تحقیقات، سرویز اور رپورٹوں کے بعد وہاں مداخلت کے لیے جواز ڈھونڈتے ہیں۔ اس بات میں شک نہیں کہ شام، عراق، سوڈان اور افغانستان میں بدامنی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ان ممالک میں بدامنی پیدا کرنے اور جاری رکھنے میں کون ملوث ہیں اور اس بدامنی سے کس کے مفادات وابستہ ہیں؟ ان ممالک میں کون قیامِ امن کی کوششوں کو سبوتاژ کر رہا ہے؟ کون امن کی راہ میں رکاوٹ ہے؟ کیوں انہیں اپنی مرضی کے مطابق اپنا نظام حکومت خود تشکیل نہیں دینے دیا جا رہا ؟

امریکا اور مغرب نے کس دلیل کی بنیاد پر افغانستان اور عراق کے عوام کے حقِ خود اِرادیت کو چیلنج کیا اور ان دونوں ممالک کی آزادی سلب کر کے اپنا تسلط قائم کیا؟ لاکھوں فوجی جدید ہتھیاروں سے لیس کر کے وہاں ملسط کیے۔ افغانستان کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا۔ عوام کو قتل کرنے، انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بنانے، کابل، بغداد اور گوانتاموبے جیلوں میں مظلوم قیدوں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھنا کہ جسے سن انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ جن لوگوں نے مغربی طاغوتی قوتوں کے سامنے سر نہیں جھکایا، ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے۔ اسلامی اقدار کا جنازہ نکالا گیا۔ تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر لاکھوں عوام کا خون بہایا گیا۔

امریکا نے چار دہائیوں سے جنگ زدہ افغانستان پر جنگ مسلط کر کے یہاں اُن لوگوں کو اقتدار سونپ دیا ہے، جو یہاں مزید جنگ کا سبب بن رہے ہیں۔

امریکا کے پاس ڈھائی لاکھ افغانیوں کو آتش و آہن سے نیست ونابود کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ امریکا کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ نائن الیون حملہ کن لوگوں نے کیا تھا؟ کیا امریکا کو عراق سے وہ جوہری ہتھیار مل گئے ہیں، جنہیں بہانہ بنا کر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجائی ہے؟ وہاں کی قیمتی نودارات لوٹ لیں اور تمام قوم کو سنی شیعہ فرقہ وارانہ لڑائی میں الجھا رکھا ہے۔ شام میں کون داعش اور بشار کوتعاون فراہم کر کے مظلوم عوام کا ستیاناس کر رہا ہے؟ امریکا، یورپ، روس اور پوٹن کے جوتے چاٹنے والے مشہور ملکوں کے علاوہ کون ہیں، جو وہاں اپنے مذموم مفادات کی خاطر آگ برسا رہے ہیں؟

ہم امن اور جنگ کے حوالے سے سروے کرنے والی مذکورہ تنظیم کہتے ہیں کہ یہ بات واضح ہے کہ شام، عراق اور افغانستان میں بدامنی اور جاری لڑائی کے پیچھے امریکا اور اس کے پٹھو ہی ہیں،جن کی بے جا مداخلت کے نتیجے میں مغربی ممالک کے شہریوں کے لیے یہ ممالک غیرمحفوظ ہو گئے۔ یہ ممالک امریکی مداخلت سے پہلے پُرامن شمارکیے جاتے تھے، لیکن جب امریکا نے ان ممالک میں براہ راست مداخلت کی اور لاکھوں افواج یہاں قیام امن کے نام پر تعینات کر کے پندرہ سالوں سے جنگ کی آگ جلا رکھی ہے، اس سے ہر گزرتے دن کے ساتھ بدامنی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکا کو کس نے یہ حق دیا کہ وہ ان ممالک کے مسائل میں مداخلت کرے؟

آج جن ممالک میں بھڑکتی جنگ میں امریکا شریک ہے، وہ جنگ وہاں کے مقامی مسائل کو حل کرنے کی خاطر نہیں ہے، بلکہ صرف امریکا کے مفادات اس جنگ سے وابستہ ہیں۔ اور جب تک وہاں امریکا کے مفادات موجود رہیں گے، تب تک، یا جب تک امریکا مکمل شکست نہیں کھا جاتا، تب تک وہاں جنگ جاری رہے گی۔ یہی امریکا کی فطرت اور اس کی پالیسی ہے۔ اس کی مثال افغانستان ہے۔ جہاں جنگ جاری رکھنے کے لیے امریکا منصوبے بنا رہا ہے۔ کبھی اعلان کرتا ہے کہ مزید ہزاروں فوجی افغانستان بھیجیں گے۔ کبھی اعلان کرتا ہے ڈرون حملوں میں تیزی لائیں گے اور کبھی کہتا ہے یہ خطہ تزویراتی لحاظ سے بہت اہم ہے۔ اگر امریکا یہاں سے نکل جائے تواس کے اہداف کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں وغیرہ۔

ہم صاف کہتے ہیں جب تک امریکی استعمار کو منہ توڑ جواب نہ دیاجائے،اس کی بالادستی ختم نہ کی جائے اور سپرپاور کے غرور کا نشہ اس کے دماغ سے نہ اتارا جائے، تب تک دنیا امن کا گہوارہ نہیں بن سکتی۔ جو ممالک نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے اتحادی ہیں، وہ بھی امریکا کے شر سے محفوظ نہیں رہ سکتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کا بھی نمبر آرہا ہے اور کئی ایک کا آنے والا ہے۔ ہمارامطالبہ یہ ہے کہ دنیا اور خطے کے ممالک بلاخوف و خطر متحد ہو کر امریکا کے خلاف کوئی حکمت عملی وضع کریں یاکم از کم امارت اسلامیہ کی جدوجہد کی حمایت کریں۔