افغانستان پر قبضہ برقرار رکھنے سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا

آج کی بات امارت اسلامیہ کے تازہ اعلامیے میں امن مخالف حلقوں کی جانب سے 29 فروری کے تاریخی معاہدے کی خلاف ورزی کے تمام الزامات کو مسترد کردیا گیا ہے اور دلائل سے ثابت کیا کہ امارت اسلامیہ نہیں بلکہ فریق مخالف نے بار بار معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ اگر غور کیا […]

آج کی بات

امارت اسلامیہ کے تازہ اعلامیے میں امن مخالف حلقوں کی جانب سے 29 فروری کے تاریخی معاہدے کی خلاف ورزی کے تمام الزامات کو مسترد کردیا گیا ہے اور دلائل سے ثابت کیا کہ امارت اسلامیہ نہیں بلکہ فریق مخالف نے بار بار معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔
اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ فریق مخالف کے پاس یہ ثابت کرنے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے کہ امارت اسلامیہ نے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا ہے، چاہے ایک ہزار قیدیوں کی رہائی کی بات ہو، بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہو یا جہادی کارروائیوں کی شدت میں کمی کی بات ہو۔ امارت اسلامیہ نے ہر لحاظ سے اپنے وعدے پورے کیے ہیں لیکن فریق مخالف ہر لحاظ سے ناکام رہا ہے۔
امارت اسلامیہ نے 29 فروری کو تاریخی معاہدے پر دستخط کے فورا بعد اس شرط پر بین الافغان مذاکرات شروع کرنے کی تیاری کا عندیہ دیا کہ اس معاہدے کے مطابق دس روز میں 6 ہزار قیدیوں کی رہائی مکمل کی جائے، امارت اسلامیہ دس دن کے اندر دشمن کے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کرنے کے لئے تیار تھی لیکن فریق مخالف نے امارت اسلامیہ کے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کو مکمل کرنے میں چھ ماہ کا وقت ضائع کیا، کابل انتظامیہ اور امریکہ نے اس دوران ملک کے مستقبل، جنگ بندی اور دیگر اہم امور کے بارے میں افہام و تفہیم تک پہنچنے میں چھ ماہ مسلسل رکاوٹ ڈالی۔
قیدیوں کی رہائی کی شرط مکمل ہونے کے بعد امارت اسلامیہ بین الافغان مذاکرات میں شامل ہوئی، امریکہ نے بین الافغان مذاکرات شروع ہونے کے تین ماہ کے اندر امارت اسلامیہ کے بقیہ ہزاروں قیدیوں کو رہا کرنے اور اس کے رہنماؤں کو بلیک لسٹ کی فہرست سے نکالنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بین الافغان مذاکرات کے چند ماہ بعد بھی ایک شرط پوری نہیں ہوئی ہے، جس کی وجہ سے بین الافغان مذاکرات کی پیشرفت میں رکاوٹ موجود ہے۔
جنگ کی شدت میں کمی لانے کے لئے یہ کہنا کافی ہے کہ امریکہ کے ساتھ تاریخی معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد امارت اسلامیہ جو بھرپور صلاحیت رکھتی ہے، اس کے باوجود نہ تو اس نے سالانہ آپریشن کا اعلان کیا ہے اور نہ ہی کسی بڑے شہر یا ضلع کو فتح کرنے کے لئے آپریشن شروع کیا ہے، فوجی صورتحال پر گہری نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ امارت اسلامیہ کے مجاہدین کی موجودہ تمام کاروائیاں دفاعی وار ہیں، جاری حملوں کا ہدف یا تو وہ قافلے ہیں جو امارت اسلامیہ کے زیر کنٹرول علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، یا ان فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جہاں دشمن کے خصوصی دستے فوجی آپریشن سے پہلے جمع ہوتے ہیں، یا وہ چوکیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جہاں تعینات اہل کار نہتے شہریوں کو ہراساں کرتے ہیں۔
یہ صرف امارت اسلامیہ کا دعوی نہیں ہے بلکہ امریکہ نے بھی کہا ہے کہ پچھلے سال کے دوران اس کا افغانستان میں کوئی فوجی ہلاک نہیں ہوا ہے۔ اس کے علاوہ افغان سرزمین سے مغرب پر کوئی حملہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کسی کو اجازت دی گئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امارت اسلامیہ دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کے لئے پرعزم ہے۔
29 فروری کے معاہدے کے مطابق تمام غیر ملکی حملہ آور رواں سال مئی تک ملک چھوڑ دیں گے، اب دوسری خلاف ورزیوں کے علاوہ اس شیڈول کے بارے میں بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی خلاف ورزی کا امکان پیدا ہوا ہے، تو دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس تاریخی معاہدے کو توڑنے اور افغانستان پر قبضہ برقرار رکھنے سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا، ناجائز قبضہ کو برقرار رکھنے سے افغانستان، خطے اور دنیا کے عوام کے دلوں میں امن سے وابستہ امیدیں دم توڑ جائیں گی، اور افغانوں کو ایک بار پھر ہتھیار اٹھانے اور اپنی سرزمین اور اقدار کا دفاع کرنے پر مجبور کر دیا جائے گا۔