افغانستان کا دماغی سرمایہ مغرب میں

نسیم خان محمدی بالترتیب روس اور امریکا نے افغانستان پر ظالمانہ یلغار کر کے یہاں کا تمام نظامِ زندگی تباہ کر ڈالا ہے۔ افغانستان کا کوئی شعبہ زندگی اور کاروبارِ حیات ایسا نہیں بچا، جو ان دونوں ڈاکوؤں کی فسادانگیزی کے شعلوں اور انسانیت کُش اقدامات سے متأثر نہ ہوا ہو۔ سیاست، تجارت، معاشرت، تعلیم، […]

نسیم خان محمدی

بالترتیب روس اور امریکا نے افغانستان پر ظالمانہ یلغار کر کے یہاں کا تمام نظامِ زندگی تباہ کر ڈالا ہے۔ افغانستان کا کوئی شعبہ زندگی اور کاروبارِ حیات ایسا نہیں بچا، جو ان دونوں ڈاکوؤں کی فسادانگیزی کے شعلوں اور انسانیت کُش اقدامات سے متأثر نہ ہوا ہو۔ سیاست، تجارت، معاشرت، تعلیم، خاندانی نظام سمیت یہاں کا ہر انسان اس جنگ کے شراروں سے جھلس رہا ہے۔ دیگر بہت سے ناقابلِ تلافی نقصانات کے علاوہ یہ صدمہ کسی بھی صورت بھولنے والا نہیں ہے کہ تباہ حال افغانستان کو خوش حال کرنے میں جن خداداد انسانی صاحیتوں نے کاری گری دکھانا تھی، وہ یورپ و امریکا کی اونچی دوکان کی مصنوعی چمک بڑھانے میں ضایع ہو رہی ہیں۔

یہ امریکا کی دراندازی کے تین سال بعد کی بات ہے۔ مسعود حسنی اور محمود حسنی دو بھائی ہیں، جو 13 سال قبل تعلیم کے سلسلے میں ہالینڈ چلے گئے تھے۔ افغانستان میں ان کی رہائش کابل میں تھی۔ وہاں دونوں نے اچھی تعلیم حاصل کی اور انجینئرنگ میں اچھی استعداد پیدا کی ہے۔ انہوں نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے، اسے اُن کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:

’ہم اپنے بچپن میں پہیوں والے ہوا سے چلنے والے کھلونے بنایا کرتے تھے۔ ہم کابل میں جس علاقے میں رہا کرتے تھے، وہاں زمین میں بارودی سرنگیں نصب تھیں۔ کھیل کے دوران تیز ہوا کی وجہ سے ہمارے بنائے ہوئے بہت سے کھلونے بارودی سرنگوں والے ممنوعہ علاقے کی طرف چلے جاتے تھے، جنہیں واپس حاصل کرنے کی کوئی راہ نہیں تھی۔ اپنے کھلونوں کے اس طرح سے ضایع ہونے پر دکھ ہوتا تھا۔ وہاں سے کھلونے واپس لانے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ کسی طرح سے یہ مائنز ختم کی جا سکیں۔ تب یہ خیال پیدا ہوا کہ ایسی کوئی ایجاد ہونی چاہیے، جو زمین میں چھپی اِس موت سے تحفظ فراہم کر سکے، تب ہمارے ذہن  میںMine Kafon  (بارودی سرنگ کا کفن) بنانے کا آئیڈیا آیا۔

اسی سوچ اور کوشش کے نتیجے میں تین سال قبل 2013ء میں ہوا کے دباؤ سے چلنے والی فٹ بال طرز کی ایک گیند بنائی ، جس کی بانس کی بنی ہوئی 170 ٹانگیں ہیں، جو مرکز میں ایک گیند سے جڑی ہوئی ہیں۔ جب کہ ہر ٹانگ کے دوسرے کونے پر پلاسٹک کی پلیٹ سی لگائی گئی ہے، تاکہ ہوا اپنے زور سے اس جمبو سائز کے فٹ بال کو آگے کی جانب دھکیل سکے۔ ایک Mine Kafon  پر تقریباً چالیس یورو کی لاگت آ تی ہے اور اس سے کئی بارودی سرنگیں ناکارہ بنائی جا سکتی ہیں۔ کیوں کہ بارودی سرنگ کا دھماکہ اس بال کو مکمل طور پر تباہ نہیں کر پاتا۔ بال کے مرکز میں   GPS کا نظام رکھا گیا ہے، جس سے ایک جانب یہ پتا لگایا جا سکتا ہے کہ بال کہاں موجود ہے، دوسری طرف یہ بھی جانا جا سکتا ہے کہ کون کون سا علاقہ بارودی سرنگوں سے پاک ہے؟!

اب تین سال کی مزید محنت کے بعد  اسی ٹیکنالوجی میں جدت لاتے ہوئے ایک ڈرون تیار کیا گیا ہے، جو بارودی سرنگوں کا پتا لگا کر انہیں ناکارہ بھی بنا سکتا ہے۔ یقینا یہ ایسی چیز ہے، جس سے بیسیوں لوگوں کی زندگی کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ اس نئی ایجاد میں  ڈرون ٹیکنالوجی، تھری ڈی پرنٹنگ اور روبوٹکس جیسی کارآمد ٹیکنالوجیز کا سہارا لیا گیا ہے۔اس ڈرون میں ایک ’میٹل ڈیٹیکٹر‘ یعنی دھاتوں کا پتہ لگانے والا آلہ بھی رکھا گیا ہے، جس سے بارودی سرنگ کا کھوج لگا کر اسے انسانی جانوں کے لیے خطرہ بننے سے روکا جانا ممکن ہو گیا ہے۔ چھ بازوؤں والے ڈرون پر لگے پنکھے ساڑھے چار کلو وزن اُڑا لے جانے کی طاقت رکھتے ہیں، جب کہ ڈرون کی باڈی پر سخت پلاسٹک سے بنی کیسنگ میں بجلی فراہم کرنے کے لیے بیٹریاں، مِنی کمپیوٹر اور ایک گلوبل پوزیشنگ سسٹم نصب ہے۔ ڈرون کے مرکزی حصے کے نیچے ایک روبوٹک بازو ہے، جس کے نچلے حصے پر لگائی گئی چھوٹی چمٹیوں کی شکل کی ڈیوائسز کو ریموٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ یہ چمٹیاں کم مقدار میں دھماکا خیز مواد پکڑ سکتی ہیں۔ دھات کا کھوج لگانے والے آلے سے زمین میں نصب بارودی سرنگ کا پتا لگانے کے بعد اس بارود کے ذریعے اسے چھوٹا سا دھماکا کر کے تباہ کیا جا سکتا ہے۔ جی پی ایس سسٹم کی بدولت اس کی پرواز کے راستے کو کمپیوٹر کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

یہ ڈرون تین مرحلوں میں کام کرتا ہے۔ پہلے نمبر پر علاقے کے نقشے سے مدد لے کر  دوسرے نمبر پر بارودی سرنگ کا کھوج لگا کر تیسرے نمبر پر اسے تباہ کرتا ہے۔ جب بارودی سرنگ تباہ ہو جاتی ہے تو ایک تھری میپنگ سسٹم اُس علاقے کو اسکین کرتا ہے، جسے کمپیوٹر ریکارڈ میں ’بارودی سرنگوں سے پاک علاقہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد پہلے سے طے کردہ راستے پر دھات کا کھوج لگانے والے آلے کے ساتھ پرواز کرتے ہوئے یہ ڈرون اس سارے حصے کا اچھی طرح جائزہ لیتا ہے۔ افغانستان میں ہر سال اندازاً تین ہزار افرد بارودی سرنگوں کی زد میں آ کر ہلاک ہو رہے ہیں۔ اس وجہ سے کوشش ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو، اس ایجاد کا عملی طور پر فائدہ اٹھایا جائے۔ افغانستان میں بچپن کی خوف ناک یادوں کے باعث بارودی سرنگوں کے خلاف کام کرنا اب زندگی کا مقصد بن گیا ہے۔

ہر سال 4 اپریل کو بارودی سرنگوں سے متعلق آگاہی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے دنیا کے 59 ممالک میں اب بھی ایسے علاقے موجود ہیں، جو جنگ کے دنوں میں بچھائی گئی بارودی سرنگوں سے اَٹے پڑے ہیں۔ اور سوڈان ایسے ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ سوڈان کی 17 ریاستیں اس تباہ کن ہتھیار کی زد میں ہیں۔جب کہ افغانستان کے بہت سے علاقوں میں بارودی سرنگوں کا جال اب بھی پھیلا ہوا ہے، جو افغانستان سے رسوا ہو کر بھاگنے والے انسانیت کے دشمن روس کی جانب سے افغان مسلمانوں کی نسل کُشی کی غرض سے بچھائی گئی تھیں۔ جنگ سے تباہ حال افغانستان میں بارودی سرنگوں کے خلاف کام کرنے والے ایک ادارے ’مائین ایکشن سینٹر‘ کی گزشتہ برس سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ افغانستان کے مختلف حصوں میں، ہر ماہ اوسطاً 45 افراد بارودی سرنگوں کے پھٹنے کی وجہ سے ہلاک یا مستقل جسمانی معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

چوں کہ یہ امر سب پر عیاں ہے کہ حکومت کے نام پر افغانستان کے صدارتی تخت پر ڈاکا ڈالے ہوئے اشرف غنی کو اس خطے کے عوام کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ امریکا کی کٹھ پتلی کے طور پر رقص پر مامور اشرف غنی گروپ نے ہمیشہ عوام کو قتل کرنے، ان کا مال لوٹنے، ان کی عزتیں پامال کرنے سمیت افغانستان کی معدنیات پر امریکا کو ہاتھ صاف کرنے کا کُھلا موقع دے رکھا ہے۔ یہ ایسی صورت حال ہے، جو تباہ حال افغانستان کے لیے کسی ناقابلِ برداشت صدمے سے کم نہیں ہے۔ کیوں کہ یہی وہ دولت ہے، جو امریکی انخلا کے بعد افغانستان کی تعمیرِنو اور ترقی کے لیے بنیادی کردار کے طور پر کام میں لائی جانے والی ہے۔اسی طرح دہشت گرد غلام حامد کرزئی کے بعد اشرف غنی گروہ نے عوام پر ظلم و ستم اور جبر و قہر کے ایسے پہاڑ توڑے ہیں کہ اب وہ افغانستان سے نکل جانے کو ترجیح دیتے ہیں، جس کی وجہ سے افغانستان کا بہت سا ’دماغی سرمایہ‘ یورپ و امریکا اور دوسرے خطوں کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔

مسعود حسنی اور محمود حسنی اس المیے کی ایک تازہ مثال ہیں، جن کی روشن صلاحیتیں اپنے محلات کے بجائے غیروں کی کوٹھریوں کو چمکانے میں ضایع ہو رہی ہیں۔ امید ہے امارت کے اربابِ اقتدار کی جانب سے اس سلسلے میں غور و فکر اور عملی کوشش بروئے کار لا کر مسلمانوں کے پاک سرمائے کو کافروں کی ٹپکتی ناپاک رال سے بچایا جائے گا۔