افغان عوام کو استعمار کے وعدوں پر اعتماد نہیں ہے

امریکی تاریخ میں فریب اور غداری کے بے شمار واقعات رجسٹرڈ ہیں۔ امریکہ عالمی سطح پر مکروفریب کے ہیروز ہیں۔اس بارے اسے میں شرمندگی کا احساس نہیں ہوتا، بلکہ اس پر فخر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر 2014ء کے اواخر میں امریکی استعماری صدر اوباما نے افغان عوام کو دھوکہ دینے کی خاطر دو […]

امریکی تاریخ میں فریب اور غداری کے بے شمار واقعات رجسٹرڈ ہیں۔ امریکہ عالمی سطح پر مکروفریب کے ہیروز ہیں۔اس بارے اسے میں شرمندگی کا احساس نہیں ہوتا، بلکہ اس پر فخر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر 2014ء کے اواخر میں امریکی استعماری صدر اوباما نے افغان عوام کو دھوکہ دینے کی خاطر دو ٹوک الفاظ  میں فخریہ انداز میں اعلان کیا کہ ہمارا جنگی مشن اختتام کو پہنچا، لیکن آج تک یعنی پانچ ماہ کے بعد بھی ان کے جنگی بمباری اور شہریوں کا ظالمانہ قتل عام اور مصائب کا سلسلہ جاری ہے۔

جمعہ کےروز  05/ جون 2015ء مقامی وقت کے مطابق دوپہر پونے بارہ بجے صوبہ خوست ضلع علی شیر کے بٹی گاؤں میں جنازے  پر امریکی ڈرون وحشی حملے کے نتیجے میں متعدد شہری شہید و زخمی ہوئيں، جو غدر اور وحشت کا تازہ ترین مثال ہے۔مذکورہ سانحہ چند وجوہات کی وجہ سے دلخراش تھا۔ دن دیہاڑے جنازے کو نشانہ بنانا، نہتے شہریوں کو جان بوجھ کر قتل کرنا اوران کے خاندان میں ماتم صف بچھانا وغیرہ جو صرف جنگی مجرمین اور وحشی درندوں  کا فعل ہے، کسی عاقل کو انسان کو بلکہ کسی انسان کو قابل برداشت نہیں ہے۔

اس سانحے سے صرف دو روز قبل 03/ جون 2015ء  انسانی حقوق کے عالمی تنظیم ( ہیومن رائٹس واچ  اورایمنسٹی انٹرنیشنل ) نے صوبہ بلخ میں رونما ہونے والے ایک فلاحی ادارے کی 9 کارکنوں کے مارے جانے کے ردعمل میں فی الفور اعلان کیا کہ “سویلین( غیر فوجی) افغانوں کا قتل ایک جنگی جرم ہے” ہیومن رائٹس واچ کے ایک محقق نے کہا کہ “یہ سانحہ…ایک….وحشتناک حملہ ہے…. ہمارا تحفظ اس حقیقت سے وابستہ ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نہتے افراد کو جان بوجھ کر… نشانہ بنایا جارہا ہے” ان کے بیانات کےروشنی میں میڈیا میں بھی کافی کالمے، تحریریں اور تجزیے نشر ہوئيں اور  ان کیساتھ مکمل یکجہتی اور اخلاص کا مظاہرہ کیا گیا۔

لیکن افسوس صد افسوس  خانہ بدوش (افغان شہریوں) کا جان بو جھ کر قتل اور دن دیہاڑے جنازے پر فضا سے آتش گیر بموں کو  گرائے جانے کی جانب کسی نے توجہ تک نہیں دی۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے چھپ سادھ  لی،  اسی وجہ سے دیگر ابلاغی ذرائع نے بھی کچھ نہیں کہا۔ خوست غلام انتظامیہ نے تو شہریوں کو دہشت گرد  اور ان کے قتل عام کو امریکہ کا حق سمجھا۔ کابل دوہری انتظامیہ تو   ہر امریکی فیصلے کو لبیک کہتا ہے اور افغانوں کے قتل عام اور انہیں تکلیف پہنچانےپر  امریکہ کا   سو مرتبہ شکریہ ادا کرتا  ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام موافق و مخالف افغانی اور عالمی برادری سمجھتی ہے کہ امریکی حکمران جنگی مجرموں کے فہرست میں پہلے نمبر پر موجود ہیں۔ انسانوں کے ساتھ جنگلی حیوانات کی طرح عمل کرتے ہیں، سب سے عظیم وحشت آزاد اقوام کی حریت اور خودمختاری پر جارحیت ہے، انہوں نے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے عالمی نظام کو تہس نہس کردیا، کسی قانون کے تابع  ہے،نہ ہی کسی وعدے اور معاہدے کے پابند ہے   اور اپنے وعدوں  سے انحراف اپنے لیے عیب نہیں سمجھتے!!۔

استعمار کے وعدوں پر کس طرح افغان عوام اعتماد کریں، جن کے صبح و شام کے بیانات میں واضح فرق ہیں، ان کے اعمال اور بیانات میں تضاد ہیں۔ ایک روز کہتے ہیں کہ “ہم افغانستان نکل جاتے ہیں، اپنے مشن کو مکمل کرلیا ہے، اس میں کامیابی حاصل کی ہے، دوسرے روز کہتے ہیں کہ ہم یہاں ٹہریں گے اور افغانستان کو نہیں چھوڑینگے، کھبی کہتے ہیں کہ جنگ ختم ہوئی اور کبھی کہتے ہیں کہ جنگ جاری ہے”۔ استعمار کو ہمارا پہلا اور آخری پیغام یہ ہے کہ “افغانوں کے پاس جارحیت کی جراثیم کو ختم کرنے کے لیے مجرب طبی نسخہ موجود ہے۔وہ ہر قسم کے جارحیت کے خلاف مقدس جہاد کا دوام ہے۔دشمن کے غدر، مکر، سازشوں، مظالم اور تمام مہلک جراثیم کو ناکارہ بنانے کے لیے مقدس جہاد صرف کافی اور شافی علاج ہے۔ واللہ الموفق