امارت اسلامیہ اور نئی قیادت

موسی مہاجر   امریکا افغانستان میں ایک طویل جنگ چھیڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے ہر گز تیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے امریکا نے اس خطے میں درجنوں سیاسی تنظیموں کے ساتھ عسکری گروپ بھی بنا دیے ہیں اور کابل انتظامیہ کو زبان […]

موسی مہاجر

 

امریکا افغانستان میں ایک طویل جنگ چھیڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے ہر گز تیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے امریکا نے اس خطے میں درجنوں سیاسی تنظیموں کے ساتھ عسکری گروپ بھی بنا دیے ہیں اور کابل انتظامیہ کو زبان اور خطے کی بنیاد پر دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ امریکا جانتا ہے وہ اپنے مقاصد میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا، جب تک مجاہدین کو آپس میں تقسیم نہ کر دے۔ اس طرح وہ امارت اسلامیہ سے اپنا انتقام بھی لے لیں گے۔ دوبارہ اقتدار کا حصول بھی ناممکن بنا دیں گے اور ملک کے طول و عرض میں جنگوں اور بدامنی کے لیے بھی راہ ہموار ہوگی۔

امیرالمؤمنین ملا منصور شہید رحمہ اللہ پر حملے کے حوالے سے صدر اوباما نے اپنے دورہ ویتنام کے دوران کہا کہ یہ حملہ امن کی کوششوں کا حصہ ہے۔ اس حملے سے مذاکرات کے لیے مجاہدین پر دباو ڈالا جائے، مگر ایسا ہے نہیں۔ کیوں کہ اس طرح کی صلح امارت کے اعلی سے لے کر ادنی فرد تک کسی کو بھی پسند نہیں۔ دوسری بات یہ کہ قیادت کی شہادت سے امارت اسلامیہ اپنا راستہ اور اپنی خودمختاری کبھی نہیں چھوڑے گی۔ امارت اسلامیہ شہداء کا گھر ہے۔ اس کے اکثر رہنما شہید ہو گئے ہیں، مگر اپنے مؤقف سے ذرہ بھر پیچھے نہیں ہٹے۔ نہ ان سے اس کی توقع رکھی جانی چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ یہ اوباما کا غیر منطقی استدلال ہے۔ منصور رحمہ اللہ کی شہادت سے مجاہدین میں ایثار اور قربانی کا نیا جذبہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس واقعے سے مجاہدین اور مسلمانوں کو دلی صدمہ پہنچا ہے، مگر ان کا جذبہ ٹھنڈا نہیں پڑا ۔ یہ صلح کی جگہ دشمن پر مزید شدید حملوں کا باعث ہوگا۔

امیرالمؤمنین شہید رحمہ اللہ کی شہادت کا مقصد مجاہدین کی صف میں اختلافات پیدا کرنا اور امارت اسلامیہ کو گروپوں میں تقسیم کرنا ہے۔ امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی وفات کے بعد بھی دشمن کی یہ کوششیں تیز ہوگئی تھیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا نے کروڑوں ڈالر خرچ کیے، مگر اس کوشش میں کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔ امارت اسلامیہ ایک فکری جماعت ہے اور اسی چیزنے انہیں گروپوں میں بٹنے سے روکا ہوا ہے۔ مجاہدین کا مقصد افغانستان سے گروہ بدی کا خاتمہ تھا، جس میں وہ کامیاب ہوگئے ہیں۔ تمام امور میں امارت اسلامیہ کا شریعت کو چاہتی ہے اور شریعت گروہوں کو ایجاد کرنے سے روکتی ہے۔

امارت اسلامیہ کی شوری دشمن کی توقعات کے برخلاف بہت کم عرصے میں نئے امیر کی تقرری  میں کامیاب رہی ہے۔ یہ دنیا کے سامنے واضح ہے کہ امارت اسلامیہ اپنے رہنماؤں کا تعین بہت جلد کرسکتی ہے۔ اس حوالے  سے انہیں کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہیں ہے۔ شوری نے اس  بھاری ذمہ داری کے لیے شیخ ہیبت اللہ اخندزادہ حفظہ اللہ کا تعین کیا، جو ہر لحاظ سے اس کے اہل ہیں۔ شیخ صاحب افغانستان کے بڑے اور جید علماء میں سے ہیں۔ وہ قرآن کریم اور احادیث کے شیخ اور فقہ حنفی کے فقیہ ہیں ۔ گہری سیاسی بصیرت اور عسکری تجربہ رکھتے ہیں۔ روس کے خلاف میدان جہاد کے عظیم سپوت رہے ہیں۔ جہادی مرحلے میں اونچ نیچ کا بہت اچھی طرح تجربہ ہے۔ امارت اسلامیہ اور اس کے بعد کے دور جہاد میں اہم ذمہ داریاں نبھائیں، جس سے انہیں قیادت کا بہترین تجربہ حاصل ہوگیا۔

امیرالمؤمنین شہید رحمہ اللہ کی جدائی سے جو صدمہ مسلمانوں اور مجاہدین کو ہوا، وہ شیخ ہیبت اللہ صاحب کی تعیین سے بہت حد تک ہلکا ہوگیا۔ شیخ صاحب کی تعین کے بعد فورا ہی کمیشنز، صوبائی اور ضلعی گورنرز، عسکری کمانڈر، عام مجاہدین اور مسلمانوں نے بلاچون وچرا بہت اخلاص سے بیعت کی اور یہ سلسلہ بہت کامیابی سے جاری ہے۔ اس بیعت نے طاغوت اور شیطان کو اس بات سے مایوس کر دیا ہے کہ وہ امارت اسلامیہ کی صف میں اختلافات پیدا کرسکے۔