امارت اسلامیہ کو بین الافغانی افہام وتفہیم کےاصل پر یقین ہے

عالمی برادری اور افغان عوام حالات کے گواہ ہیں، کہ تیرہ برس اور سات ماہ قبل امریکہ اور اس کے ساتھیوں نے افغان مقدس اور خودمختار اسلامی سرزمین پر حملہ کیا۔ افغانستان کی تاریخی مطالعے، جغرافیائی خصوصیات کی چھان بین اور افغان ثقافت کی تحقیق کے بغیراس پر قبضہ کیا۔ ایسے حالت میں ان کیساتھ […]

عالمی برادری اور افغان عوام حالات کے گواہ ہیں، کہ تیرہ برس اور سات ماہ قبل امریکہ اور اس کے ساتھیوں نے افغان مقدس اور خودمختار اسلامی سرزمین پر حملہ کیا۔ افغانستان کی تاریخی مطالعے، جغرافیائی خصوصیات کی چھان بین اور افغان ثقافت کی تحقیق کے بغیراس پر قبضہ کیا۔ ایسے حالت میں ان کیساتھ اس ناجائز حملے کی جواز کے لیے تکبر، طغیان اور استعماری افکار کے علاوہ اور کوئی قابل توجہ دلیل، جواز اور منطق نہیں تھا۔

دنیا کو معلوم ہے کہ استعمار پہلے ہی روز سے ناکام تھے،لیکن ابتداء میں ان کا خیال تھاکہ جارحیت کے حکمت عملی میں نواقص موجود ہیں، تو حکمت عملی کی تبدیلی کی کوششیں اس امید سےتیز کردی، کہ اپنی حتمی شکست کا سدباب کریں۔

استعمار کی سب سے خطرناک حکمت عملی افغان برادرم اقوام، اسلامی مذاہب اور مختلف طبقات کے درمیان نفرت ڈالنا تھا، تاکہ وہ آپس میں باہمی چپلقش میں مبتلا ہوجائے اور استعمار شکست کی شرمندگی سے نجات پالے، لیکن ان کا یہ منحوس سازش الحمدللہ افغان عوام کی بہادری اور اسلامی بھائی چارے کی قربانی کی وجہ سے ناکامی سے روبرو ہوا۔

خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ عوام میں باہمی مکالمے کی اصلاح اور باہمی افہام و تفہیم کے جذبات روز بروز بڑھہ رہے ہیں، ہر گروہ، ہرگروپ اور ہر افغان امن چاہتا ہے۔خوش قسمتی سے،استثناء کے بغیر، ہم تمام افغان معتقد ہیں،کہ آج صلح ایک فوری اور مبرم ضرورت ہے۔ عادلانہ صلح میں تمام افغانوں کی خوشحالی اور نیک بدبختی لپٹی ہوئی ہے۔

دوحہ بین الافغانی تحقیقاتی کانفرنس جو مملکت قطر کے تعاون سے پگواش عالمی نتظیم کی جدوجہد سے اقوام متحدہ کے نمائندوں اور افغانستان میں سویڈن کے سفیر کی شمولیت سے افغانوں کے درمیان افہام و تفہیم کے میکنزم کو لانے کی غرض سے2 اور 3 مئی 2015ء منعقد ہوا، یہ کانفرنس صلح اور امن کے متعلق افغانوں کی آمادگی کا واضح ثبوت ہے۔

خوش قسمتی سے دوحہ تحقیقاتی کانفرنس میں افغانستان کے مختلف علاقوں اور طبقات کے متعدد بااثر افغانوں، قومی عمائدین، امارت اسلامیہ کے نمائندوں، حزب اسلامی کے نمائندے، خواتین اور نوجوانوں نے شرکت کی۔کانفرنس کے شرکاء میں سے ہر ایک نے اپنی باری میں آزاد فضا میں دائمی اور پروقار صلح کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کانفرنس کے فضا پر مکمل نظم، کامل احترام اور عزت کا حاکمیت تھا۔

بیرونی افواج کی انخلاء، جارحیت کا خاتمہ، اسلامی نظام کا قیام، صلح کے لیے ایک سازگار ماحول کو لانا، جانبین کو امن کانفرنس میں مساوی امکانات مہیا کرنا اور امن کے سامنے موجود رکاوٹوں کو ختم کرنا، کانفرنس کے متعدد سفارشوں میں سے تھے، جن کا شرکاء تاکید کررہاتھا۔

امارت اسلامیہ کے نمائندوں کی جانب سے پیش شدہ منصوبہ کوشرکاء نے بہت سراہا ، اس کے مطالب اور تجاویز معقول اور صلح کے پیشترفت کے لیے ضروری سمجھے گئے۔ یہ اعتماد موجود تھا کہ جارحیت، بلیک لسٹ اور انعامات کا فہرست امارت اسلامیہ کے لیے ایک رسمی ایڈریس کا عدم موجودیت اور سیاسی قیدیوں پر پابندی، امن کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔

امارت اسلامیہ کا عظیم ہدف جارحیت کا خاتمہ اور وطن عزیز میں اسلامی نظام کا قیام اور حاکمیت ہے، اسے بین الافغانی افہام و تفہیم پر یقین ہے اور اس راہ میں مزید جدوجہد کی حمایت کرتی ہے۔ قرآن وسنت کی روشنی اور اخوت و محبت کی فضا میں اختلافات کے حل کے لیے راہ تلاش کرنا چاہتی ہے۔ ہم معتقد ہیں کہ صلح صرف ضرورت بلکہ ایک فریضہ ہے، صلح اللہ تعالی کا عظیم نعمت ہے۔ صرف کتاب اور سنت کی جانب راغب ہونے اوراللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کی ہدایات پر عمل کے نتیجے میں اس عظیم نعمت کو حاصل کرسکتے ہیں۔ واللہ الموفق