امریکا! تمہیں چوٹ لگی ہے

  سیف العادل احرار افغانستان ایک آزاد و خودمختار اسلامی ملک تھا۔ امارت اسلامیہ نے اسلامی نظریہ حیات کے مطابق شرعی قوانین کے ذریعے یہاں مکمل اور مثالی امن قائم کیا تھا۔ کرپشن، لوٹ مار، بدانتظامی، چوری، ڈکیتی، اغواء برائے تاوان، جسم فروشی اور منشیات فروشی جیسے جرائم کا کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ لوگ […]

 

سیف العادل احرار
افغانستان ایک آزاد و خودمختار اسلامی ملک تھا۔ امارت اسلامیہ نے اسلامی نظریہ حیات کے مطابق شرعی قوانین کے ذریعے یہاں مکمل اور مثالی امن قائم کیا تھا۔ کرپشن، لوٹ مار، بدانتظامی، چوری، ڈکیتی، اغواء برائے تاوان، جسم فروشی اور منشیات فروشی جیسے جرائم کا کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ لوگ سفید پرچم تلے پُرامن زندگی بسر کر رہے تھے، لیکن دنیا کی استعماری قوتوں کی نظر میں اس ملک کا نظام ناقابل برداشت تھا۔ انہوں نے اس لیے نائن الیون کا بہانہ بنا کر افغانستان پر فوج کشی کر کے دنیا میں واحد اسلامی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اس کی جگہ ایک عبوری حکومت تشکیل دے کر افغانستان کی فضا اور سرزمین پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت امریکی صدر نے اعلان کیا کہ مجاہدین کو ہمیشہ کے لیے نیست و نابود کر دیا گیا ہے، وہ اب دوبارہ سر اٹھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔
2005ء کے بعد مجاہدین کے حملوں میں اچانک تیزی آئی۔ مجاہدین نے دوبارہ اپنی صف کو منظم و متحد کر کے افغانستان بھر میں دشمن کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ تیز کر دیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2010ء امریکی اور اس کے اتحادی افواج پر بہت بھاری گزرا ہے۔ مجموعی طور پر گزشتہ پندرہ سال کے دوران ہزاروں امریکی اور اتحادی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ 2014ء کے بعد افغان فورسز نے سکیورٹی انتظامات سنبھال لیے، لیکن دو سال میں ہی ان کے حوصلے پست ہو گئے۔ وہ تباہی کے دہانے تک پہنچ گئی ہے۔ امریکا اور نیٹو افواج کی جانب سے افغانستان کی کھوکھلی فوج کی تنظیم نو، تربیت اور اسے جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے کے باجود ان میں بہت ساری خامیاں موجود ہیں۔ کرپشن عروج پر ہے۔ نام نہاد صدر حکومتی انتظامات اور امور چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ انہوں نے چند روز قبل غزنی کے ایک شہر کے لیے میئر مقرر کیا تو غزنی کے ایک کمانڈر نے اس کی تقرری مسترد کر کے واپس کابل بھیج دیا۔ ایک اعلی حکومتی عہدے دار نے انکشاف کیا کہ صوبہ ہلمند میں افغان فورس کو ماہانہ 39 لاکھ لیٹر تیل فراہم کیا جا رہا ہے، جب کہ صرف ایک لاکھ لیٹر تک استعمال کیا جاتا ہے، باقی 38 لاکھ لیٹر تیل سمیت قیمتی فوجی گاڑیاں اور مہنگا اسلحہ فروخت کر دیا جاتا ہے۔
امریکا نے افغان فوج کی تشکیلِ نو پر اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں اور آج بھی خرچ ہو رہے ہیں۔ اس کے باوجود افغان فورسز مجاہدین کے سامنے ٹھہرنے کی سکت نہیں رکھتیں۔ 2014ء کے بعد افغان فورس مجاہدن کے خلاف کسی بھی آپریشن میں مکمل شکست سے دوچار ہو رہی ہیں۔ جب کہ امارت اسلامیہ نے قندوز سمیت افغانستان کے 36 اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔ حال ہی میں ایک نئی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مجاہدین نے افغانستان بھر میں 36 اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے اور مزید 104 اضلاع پر قبضے کا خطرہ ننگی تلوار کی طرح سر پر لٹک رہا ہے۔ افغانستان کی تعمیرنو سے متعلقہ امور کے نگرانِ خصوصی انسپکٹر جنرل ’ایس آئی جی اے آر‘ کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرکاری دستوں کے زیرقبضہ علاقے مجاہدین کے کنٹرول میں جا رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں امریکی فوج کی اعلی کمان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اس سال جنوری میں افغان سکیورٹی فورسز کو افغانستان کے کل 34 صوبوں کے 407 اضلاع میں سے 70 فیصد پر کنٹرول حاصل تھا، لیکن پانچ ماہ بعد مئی کے آخر تک ایسے اضلاع کا تناسب کم ہو کر 65 فیصد رہ گیا ہے۔ اب افغان سکیورٹی دستے قریبا پانچ فیصد علاقے پر اپنے قبضے سے محروم ہو گئے ہیں۔ سرکاری دستوں کو مجاہدین کی مسلح کارروائیوں کے نتیجے میں کئی علاقوں سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔ کیوں کہ افغان فورسز کو مجاہدین کے خلاف لڑتے ہوئے دسمبر 2014ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حالیہ چند روز میں مجاہدین نے عمری آپریشن کے تحت صوبہ ہلمند کے ضلع خانشین پر قبضہ کیا ہے۔ اسی طرح ضلع نادعلی، ناوہ، گرمسیر، مارجہ، قندھار کے ضلع شاولیکوٹ، روزگان کے ضلع دہراود، قندوزکے ضلع دشت آرچی، فراہ کے ضلع بکواہ سمیت افغانستان بھر میں مجاہدین کی پیش قدمی تیزی سے جاری ہے اور کامیاب کارروائیوں نے دشمن کو بوکھلا کر رکھ دیا ہے۔
مجاہدین نے دو روز قبل وفاقی دارالحکومت کابل میں غیرملکیوں کے زیراستعمال ہوٹل پر حملہ کیا۔ بگرام ائیرپورٹ کے قریب سکیورٹی لحاظ سے محفوظ ترین علاقے میں امریکا اور دیگر استعماری ممالک کے فوجیوں کے زیرِ استعمال ’نارتھ گیٹ ہوٹل‘ پر چار فدائی مجاہدین نے اعصاب شکن حملہ کیا۔ ایک فدائی مجاہد نے بارود بھرے ٹرک کو ہوٹل کے دروازے پر زور دار دھماکے سے اڑا دیا، جس کے بعد باقی تین جانثار مجاہدین ہوٹل میں گھس گئے۔ رات ایک بجے کے بعد شروع ہونے والی لڑائی صبح پانچ بجے تک جاری رہی۔ امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق تینوں فدائی مجاہدین ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے لیس تھے۔ انہوں نے ہوٹل میں موجود تمام غیرملکیوں کے خلاف آپریشن کیا اور جو بھی سامنے آیا، اسے اندھی موت کے کنویں میں پھینکنے سے قطعا گریز نہیں کیا۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ اس حملے میں سیکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے ہیں، لیکن کٹھ پتلی حکومت نے ایک سکویرٹی اہل کار کی ہلاکت کا دعوی کیا ہے، جو دراصل جھوٹ کی اعلی ترین مقام ہے، زہے نصیب! جو صرف اشرف غنی کے حصے میں آیا ہے۔ کئی ٹن دھماکہ خیز مواد سے بھرا ٹرک، تین اسلحہ بردار مجاہد، سیکڑوں غیرملکیوں کی موجودگی اور ساڑھے تین گھنٹے کی لڑائی، کیا صرف ایک پولیس اہل کار زخمی ہوا ہے؟ جھوٹ بولتے وقت عقل کو استعمال کر لیا ہوتا کیا ہی اچھا تھا اور آئندہ دنوں حقائق منظرعام پر آنے کے بعد شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ نام نہاد حکومت کے ترجمان نے دعوی کیا ہے کہ حملے میں ہوٹل کا اسٹاف اور مہمان محفوظ رہے ہیں، تاہم ایک پولیس اہل کار ہلاک اور تین زخمی ہوئے ہیں۔ حملے کے وقت ہوٹل میں 11 غیرملکی موجود تھے، جنہیں اسٹاف کے ساتھ فورا ہی ہوٹل کے محفوظ کمروں میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ البتہ حملے میں ہوٹل کی بیرونی دیوار کو نقصان پہنچا ہے، لیکن امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے واضح کیا ہے کہ اس ہوٹل میں ہر رات تین سے چار سو تک غیرملکی آتے تھے۔ ہوٹل کی ویب سائٹ کی تصویروں اور نقشے سے بھی پتا چلتا ہے کہ غیرملکیوں کے لیے نہایت محفوظ تھی۔ اس لیے یہاں بڑی تعداد میں غیرملکی مقیم رہتے ہیں۔ ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ ہوٹل کو اس لیے بھی نشانہ بنایا گیا ہے کہ یہ جگہ غیرملکی حملہ آوروں کے لیے عیاشی اور فحاشی کے اڈے کے طور پر استعمال ہو رہی تھی۔ ترجمان کے مطابق اس حملے میں ایک سو سے زائد امریکی اور غیرملکی ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے ہیں، جب کہ ہوٹل بھی تباہ ہوا۔
اس حملے سے ثابت ہوتا ہے کہ امارت اسلامیہ اتنی مضبوط ہوگئی ہے کہ وہ جب اور جہاں چاہے، حملہ کر سکتی ہے۔ جس طرح قندوز، تخار، بدخشان، ہلمند، فاریاب، جوزجان، غزنی، قندھار، فراہ، ننگرہار، میدان وردگ سمیت دیگر صوبوں میں سکیورٹی فورسز پسپا ہو رہی ہیں۔ مجاہدین مسلسل پیش قدمی کر رہے ہیں۔ اسی طرح ہزاروں غیرملکی اور افغان سکیورٹی فورسز کے حصار میں رہنے والا کابل بھی مجاہدین کے حملوں کی زد میں رہنے لگا ہے۔ جس کا واضح ثبوت گزشتہ ماہ فورسز پر حملہ اور حال ہی میں غیرملکیوں کے زیرِ استعمال ہوٹل پر کامیاب حملہ ہے۔ اب ضروری ہے کہ امریکا اور نیٹو افغانستان کی خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے مکمل طور پر نکل جائیں۔ افغانستان کا مستقبل ان کی عوام پر چھوڑ دیں، تاکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق حکومت تشکیل دیں۔ افغان عوام اور ہمسایہ ممالک کے مسلمانوں سے بھی یہی امید ہے کہ وہ افغانستان کی مکمل آزادی کے لیے امارت اسلامیہ کی مدد کریں۔ ان کی جدوجہد کی حمایت کریں اور امریکا کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں۔ بصورت دیگر افغانستان میں قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے اور نہ ہی خطے کے دیگر ممالک میں امن قائم ہو گا۔