امریکیوں کاپیغام اور مجاہدین کا جواب

  موسی فرہاد   چند روز قبل امریکی ڈرون طیارے نے امارت اسلامیہ کے سربراہ ملا اختر محمد  منصور کو نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔  حملے کے بعدامریکی صدر اوباما نے کہا: ہم نے طالبان رہنما کو نشانہ بنایا، جوایک اہم اقدام ہے۔ ہم نے افغانستان میں قیام امن کے لیے راہ ہموار کر […]

 

موسی فرہاد

 

چند روز قبل امریکی ڈرون طیارے نے امارت اسلامیہ کے سربراہ ملا اختر محمد  منصور کو نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔  حملے کے بعدامریکی صدر اوباما نے کہا: ہم نے طالبان رہنما کو نشانہ بنایا، جوایک اہم اقدام ہے۔ ہم نے افغانستان میں قیام امن کے لیے راہ ہموار کر دی  ہے۔ طالبان کوایک موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ کابل حکومت تسلیم کرکے اس کے خلاف حملے بند کر دیں۔

اس کے بعد کابل کے حکام نے بھی اوباما کی تقلید کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم نے ملا منصور کو مارا ہے۔  طالبان امن عمل میں شریک ہو کر مذاکرات کریں۔  بہ صورت دیگر پھر امریکی ڈرون طیاروں سے انہیں مار دیں گے۔

یہ ڈرون حملہ اور اس سے جڑئے ہوئے امریکا و افغان حکام کے بیانات ایک خاموش پیغام ہے، جوامریکا اوراس کی کٹھ پتلیوں کی جانب سے نئے حربے اور جدید دفاعی حکمت عملی کی شکل میں مجاہدین کو دیاگیا ہے۔ یہ پیغام ایک ایسے وقت میں دیا ہے کہ امریکا اوراس کی کٹھ پتلی افغان حکومت کو چار فریقی ممالک کے نام نہاد مذاکرات اور تمام شیطانی چالوں میں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے رسوائی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں کیا۔ وہ مجاہدین کے ہاتھوں عالمی سطح پر بدنامی اور شکست سے دوچار ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ (امارت کے رہنما کی شہادت) اوردھمکیوں سے امریکا اور کٹھ پتلی حکومت نے دنیاکے سامنے اپنی حماقت دکھائی اور کمزوری کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ امریکا کا پہلا حملہ نہیں ہے، بلکہ اس نے افغانستان میں گزشتہ چودہ سال کے دوران قتل عام کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ہزاروں معصوم لوگوں کو جنگی طیاروں، ٹینکوں اور اپنی کٹھ پتلی حکومت کے جرائم پیشہ اہل کاروں کے ہاتھوں شہید کیا ہے، لیکن اس کے باجودکسی ایک افغان شہری نے بھی ان کے سامنے اعتراف کیا اور نہ ہی سرنڈر ہوا۔ پھر 16 سال بعد پرانی روایت پر اتنی خوشی کا اظہار کرنا حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔

امریکا افغانستان میں مجاہدین کے سامنے بے بس ہو کر راہ فرار اختیار کر رہا ہے۔اس نے 44 ممالک کی افواج کو افغانستان میں مجاہدین کے خلاف لڑایا ہے۔نہ صرف ڈرون حملے کیے گئے، بلکہ B52،چینوک ہیلی کاپٹروں،جیٹ طیاروں اور دیگر جنگی سامان کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔اس کانتیجہ یہ برآمدہواکہ امریکہ کوشکست اورطالبان کوکامیابی نصیب ہوئی،جب امریکہ کوافغانستان میں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی توانہوں نے ملااخترمحمدمنصورکوشہیدکرکے طالبان کے خاتمے کاخواب دیکھالیکن وہ بھول گئے کہ یہ تحریک کسی فردکی شہادت سے ختم ہوگی اورنہ ہی شکست خوردہ امریکہ کوکامیابی ملے گی بلکہ شہیدکے لہوسے ہمارے گلشن اسلام کی آبیاری ہوتی ہے اوراس تحریک میں مزیدتیزی آئے گی ۔

وہ سمجھتے تھے کہ طالبان سربراہ کوشہیدکرنے سے طالبان خوفزدہ ہوجائیں گے اورہتھیار ڈالنے پرمجبورہوجائیں گے،انہیں متفقہ امیرنہیں ملے گا،ان کے اختلافات کھل کرسامنے آئیں گے اوران کاشیرازہ بکھرجائے گا،اختلافات کی وجہ سے ان کی جدوجہدمیں کمی آجائے گی، امریکہ اورکے ایجنٹوں کو سکون ملے گااور وہ اپنے عزائم میں کامیاب ہوجائیں  گے لیکن طالبان نے امریکیوں اور ان کے کٹھ پتلیوں کو واضح پیغام دیاکہ ان کاخواب کبھی پورانہیں ہوگا،طالبات متحدتھے اورمتحدرہیں گے ،مستقبل قریب میں وہ اپنی آنکھوں سے طالبان کی پیش قدمی اورفتوحات کودیکھیں گے۔

طالبان نے ایک بارپھربہترین حکمت عملی اپناتے ہوئے دشمن کی توقعات کے برعکس اپنے امیرکی شہادت کے 29 گھنٹے کے بعدمتفقہ طورپراپنے نئے امیرکاانتخاب عمل میں لاکرشیخ الحدیث حضرت مولاناھیبت اللہ صاحب مدظلہ العالی کوان کاجانشین مقررکیااور کامیابی سے یہ مرحلہ مکمل کیاکسی نے اختلاف کاتصوربھی نہیں کیا۔

نئے امیرکے متفقہ طورپرانتخاب کامرحلہ مکمل ہونے سے دشمن کوزبردست دھچکالگاان کی تمام امیدیں دم توڑگئیں، طالبان نے ماضی سے کئی گنازیادہ اتحاداوراتفاق کامظاہرہ کیاجس سے دشمن نہایت مایوس ہواطالبان نے اپنے موقف پرڈٹے رہنے اوراستقامت کے ساتھ اپنے ہدف تک پہنچنے اوراپنے مشن پرثابت قدم رہنے کاپیغام دیا۔

طالبان نے کابل کی کٹھ پتلی حکومت کاوہ پیغام جس میں انہوں نے دعوی کیاتھاکہ طالبان ہتھیار ڈال کرمفاہمتی عمل میں شامل ہوجائیں یا پھرامریکی ڈرون حملوں کے لئے تیاررہے کومستردکرتے ہوئے اس کونام نہادحکومت کی بوکھلاہٹ اوراس کی حماقت کانتیجہ قراردیا۔

کیونکہ اگرکابل کے حکام طالبان کوامریکی ڈرون حملوں سے ڈراتے ہیں یاکسی طالب مجاہدکوشہیدکرسکتے ہیں توطالبان بھی کابل میں ایک حملہ میں کابل حکومت کے سیکورٹی حکام کے 200 اہلکاروں کوہلاک کرسکتے ہیں۔

طالبان کاموقف یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے ایسے جذباتی اقدامات اٹھانے، گھناؤنے اعمال اورناعاقبت اندیش فیصلے کرنے اورکابل حکومت کی طرف سے طالبان کوغیرملکی طیاروں سے ڈرانے اورسرنڈرہونے کاپیغام دینے کاواضح مطلب یہ ہے کہ وہ قیام امن کے لئے جاری مذاکرات اورافہام وتفہیم سے افغان مسئلہ حل کرنے میں ہرگزسنجیدہ نہیں ہیں بلکہ وہ مفاہمت کے جھوٹے وعدوں کے ذریعے لوگوں کوورغلانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ایسے جھوٹے نعروں سے کبھی بھی امن قائم ہوگااور نہ ہی مفاہمت کی پالیسی کامیاب ہوسکتی ہے ۔