امریکیوں کو صدارتی مافیا کی زبان استعمال نہیں کرنی چاہئے

آج کی بات امریکی حملہ آوروں کی طرف سے مسلسل خلاف ورزیوں کے بارے میں امارت اسلامیہ کی حالیہ انتباہ کے جواب میں امریکی فوج کے ترجمان سنی لیگٹ نے غیر ذمہ دارانہ بیان دیتے ہوئے کہا کہ “وہ طالبان کے خلاف لڑائی میں سرکاری فوج کی حمایت کرتے ہیں، ان کی پشت پر ہم […]

آج کی بات

امریکی حملہ آوروں کی طرف سے مسلسل خلاف ورزیوں کے بارے میں امارت اسلامیہ کی حالیہ انتباہ کے جواب میں امریکی فوج کے ترجمان سنی لیگٹ نے غیر ذمہ دارانہ بیان دیتے ہوئے کہا کہ “وہ طالبان کے خلاف لڑائی میں سرکاری فوج کی حمایت کرتے ہیں، ان کی پشت پر ہم کھڑے ہیں اور یہ معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے۔”
اسی امریکی جنرل نے ایوان صدر کے کٹھ پتلی مافیاز کی زبان استعمال کرتے ہوئے طالبان پر سول سوسائٹی کے ممبروں اور صحافیوں کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا، ان کا کہنا تھا کہ طالبان ان کارروائیوں کے بعد پھر ذمہ داری قبول نہیں کرتے ہیں، انہیں ایسی کارروائیوں سے گریز کرنا چاہئے۔
امارت اسلامیہ کے بیان میں، جس میں حملہ آوروں کی جانب سے دوحہ معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیوں کا حوالہ دیا گیا ہے، کہا گیا ہے کہ ننگرہار ، ہلمند ، فراہ اور کچھ دیگر صوبوں میں امریکی حملہ آوروں نے مجاہدین اور مجاہدین کے نام پر نہتے شہریوں پر فضائی حملے کئے ہیں، دوسری جانب قابض افواج افغان سیکورٹی فورسز کو ایسے وقت میں فضائی مدد فراہم کررہی ہیں کہ انہوں نے قندھار کے ضلع ارغنداب میں مجاہدین کے خلاف کارروائیاں شروع کی ہیں، اس طرح غیر جنگی علاقوں میں فضائی حملوں اور زمینی کارروائیوں میں حکومتی فورسز کے ساتھ فضائیہ کی مدد واضح طور پر دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
نیٹو کے ترجمان نے امارت اسلامیہ کے بیان کے ردعمل میں بالکل غیر ذمہ دارانہ اور صدارتی مافیا کی زبان استعمال کی ہے۔
امریکی جارحیت پسند جنرل کو یہ سمجھنا چاہئے کہ آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنی خلاف ورزیوں کا جواب دیں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کا الزام مجاہدین پر لگانا غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے۔
مجاہدین کبھی بھی شہریوں کو نشانہ نہیں بناتے ہیں بلکہ وہ تو عام شہریوں کے تحفظ کے لئے پچھلے 20 سالوں سے حملہ آوروں کے مظالم کے خلاف برسرپیکار ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ملک میں عام شہریوں کا قتل عام، خواہ وہ ٹارگٹ کلنگ کی شکل میں ہو، فضائی حملوں، چھاپوں کی شکل میں ہو یا بھاری ہتھیاروں کے استعمال کی شکل میں ہو، وہ صرف حملہ آوروں اور ان کے کٹھ پتلیوں کی کارستانیاں ہیں۔
داعش کے نام پر پراسرار ہلاکتوں کا جو سلسلہ جاری ہے دراصل یہ امریکی جرنیلوں کی ہدایت پر ایوان صدر اور قومی سلامتی کے کارندے انجام دے رہے ہیں۔
امریکی جنگ پسند جرنیلوں کو اگر اس سرزمین کے انسانوں کی اہمیت ہوتی تو یہاں مادر بم استعمال نہیں کرتے، نو ماہ میں 8 ہزار بم نہیں گراتے، جن میں صرف 800 خواتین اور بچے شہید ہوئے۔ اس حوالے سے بین الاقوامی تنظیم کی گزشتہ سال کی رپورٹ ملاحظہ کریں۔
آج نیٹو کے ترجمان نے لاپرواہی اور غیر ذمہ داری کے ساتھ صحافیوں اور عام شہریوں کے پراسرار قتل عام کے الزامات امارت اسلامیہ پر لگائیں جو در حقیقت کابل کی کٹھ پتلی حکومت کی اس لابی کی زبان ہے جو امن کی سخت مخالف ہے اور غیر ملکی قبضے کے تسلسل اور جنگ کو دوام بخشنے کی حامی ہے۔
امریکی جنرل کو ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنے ناکام کٹھ پتلیوں کے لئے امارت اسلامیہ کے ساتھ ہونے والے کامیاب معاہدے کے نفاذ میں رکاوٹ بنے رہے۔
امارت اسلامیہ کوشش کرتی ہے کہ عالمی برادری کی جانب سے اس پر الزام نہ آئے لیکن کسی کی دھمکیوں سے کوئی خوف نہیں ہے، یہ محض دعوی نہیں ہے بلکہ اس کو ثابت کرنے کے لئے مجاہدین نے اپنے جسموں سے دھماکہ خیز مواد کو باندھ کر جارحیت پسندوں کا مقابلہ کیا، گوانتناموبے، بگرام اور پل چرخی جیلوں کو آباد کیا لیکن اپنے نظریے اور جدوجہد پر سمجھوتہ نہیں کیا۔
امارت اسلامیہ کبھی بھی جنگ بندی کے مطالبے کو غیر معقول انداز سے خالی میدان میں تسلیم نہیں کرے گی اور نہ ہی کوئی بمباری اور دہشت گردی کے ذریعے اس کو اپنے اہداف سے گریز کرنے پر مجبور کر کرسکتا ہے۔
امریکی جرنیل جو ایک طرف دوحہ معاہدے کے لئے پرعزم نہیں رہتے ہیں غیر جنگی علاقوں پر روزانہ فضائی حملے کرتے ہیں، زمینی کارروائیوں کے دوران کٹھ پتلی فورسز کو ہوائی مدد فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ نیٹو کے ترجمان سنی لیگٹ بے بنیاد الزامات لگانے سے امراللہ صالح کی ذمہ داری بھی نبھاتے ہیں، جس سے امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے، امارت اسلامیہ کے رہنماؤں نے جتنا حوصلہ کیا ہے، نیچلی سطح کے مجاہدین اتنا برداشت نہیں کر سکتے ہیں، اگر امریکی فوجی اپنے مظالم کو جاری رکھیں گے تو پھر ان کے خلاف جو کچھ ہوا اس کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔