امریکی جارحیت کے خلاف افغان عوام کی جنگ مقدس جہاد ہے

افغان مقدس سرزمین پر امریکی قبضے اور عریاں جارحیت کے سترہ سال کے آغاز سے افغان مظلوم عوام پر وحشت کی تازہ لہر شروع ہوئی اور نام نہاد انسانی حقوق کے تحفظ کے دعویدار  امریکہ کی جانب سے افغانستان پر انسانی جرائم جاری ہیں۔بمباریاں، رات کے چھاپے، بچوں، خواتین اور نہتے عوام کا قتل عام […]

افغان مقدس سرزمین پر امریکی قبضے اور عریاں جارحیت کے سترہ سال کے آغاز سے افغان مظلوم عوام پر وحشت کی تازہ لہر شروع ہوئی اور نام نہاد انسانی حقوق کے تحفظ کے دعویدار  امریکہ کی جانب سے افغانستان پر انسانی جرائم جاری ہیں۔بمباریاں، رات کے چھاپے، بچوں، خواتین اور نہتے عوام کا قتل عام اور ان پر تشدد استعمار کا معمول بن چکا ہے۔

میدان جنگ میں امارت اسلامیہ کے مجاہدین کی قربانیوں اور بہادری کے کارناموں نے امریکی جنرلوں کو مجبور کردیا کہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی خاطر نئی پالیسیاں مرتب کرکے اپنی عالمی غرور کو محفوظ کرلے۔

افغانستان میں امریکی جنرل جان نیکولسن نے 20/ نومبر 2017 ء کو پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ “ان کی کوشش یہ ہے کہ مسلح طالبان کی منشیات کا روک تھام کریں”۔ کابل انتظامیہ کے کٹھ پتلی حکام نے پریس ریلیز کے ذریعے امریکی جنرل کے بیان کی تائید پر مہر ثبت کرتے ہوئے ایک قدم آگے نکل گئی اور موجودہ جنگ کو منشیات کی جنگ قرار دی۔

یہاں چند باتیں قابل غور ہیں  :

1 : قابل یاد آوری ہے کہ جب 07/ اکتوبر 2001ء کو امریکہ نے افغانستان پر ناجائز حملے کا آغاز کیا، تو اس وقت منشیات کی کاشت اور منشیات کے عادی  افراد کی فیصدی اس وقت کی نسبت کتنی تھی ؟ یہ ایک واضح حقیقت ہے، کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ امارت اسلامیہ کے دوراقتدار میں منشیات کی کاشت صفر تک  جاپہنچی تھی۔

2 : افغانستان میں منشیات کی کاشت، پیداوار اور کاروبار کے پس پشت کون ہیں ؟یہ مسئلہ کیوں روزبروز بڑھ رہا ہے؟یہاں تک تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق منشیات کے عادی افرادملک کی آبادی کے دس فیصد تک جاپہنچی ہے، ان تمام  بدقسمتی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے ؟ اگر استعمار جمع کابل انتظامیہ اس مسئلے کو کنٹرول نہیں کرسکتی، تو پھر کیوں دعوے کرتے ہیں  کہ افغان عوام ہمارے حامی ہیں اور اگر جان بوجھ اس مشکل کو پروان چڑھا رہا ہے،  تو ان کے مقاصد کیا ہیں  ؟

3 : افغانستان میں منشیات کی کاشت، پیداوار اور کاروبار کی معاشی فائدہ کون حاصل کررہا ہے ؟ زمیندار اور کاشتکار بیچارے تو اپنی اخراجات تک کو پورا نہیں کر پاتے، خلاصہ یہ ہے کہ افغانوں کو بہت ہی کم معاشی فائدہ حاصل ہوتی ہے، بلکہ زیادہ فائدہ ان افراد کے ہاتھوں لگ جاتی ہے، جو منشیات کو افغانستان سے بیرون ممالک برآمد کرتے ہیں، افغان عوام بلکہ عالمی برادری کو بخوبی معلوم ہے کہ منشیات یورپ اور امریکہ کی منڈیوں میں سونے کی قیمت پر فروخت ہوتے ہیں اور ان مارکیٹوں کا کنٹرول افغانوں کے ہاتھوں میں نہیں ہے۔

امارت اسلامیہ افغانستان کو یقین ہے کہ منشیات افغان معاشرے کے لیے ایک عظیم مسئلہ ہے، جتنا جلد ممکن ہوسکے، اسے حل کیا جائے، اسی وجہ سے ماضی کے مانند اب بھی ارادہ رکھتی ہے کہ معقول طریقے اور بتدریج اس مسئلے کو حل کریں،  البتہ ملکی قبضہ اور اجنبی افواج کی موجودگی تمام مصائب کی جڑ ہے  اور جارحیت و استعمار کے خلاف  ہماری جنگ مقدس جہاد ہے، کسی صورت میں منشیات کی جنگ نہیں ہے۔