امریکی منافقانہ پالیسی کا ایک اورمظاہرہ

ماہنامہ شریعت کااداریہ امریکہ نے ایک بار پھر افغانستان میں اپنی فوج کو باقی رکھنے کا فیصلہ کرکے اپنی منافقانہ روش اورطوطاچشمی کا کھل کر ثبوت فراہم کردیاہے ۔ ۲۰۱۲میں جب امریکہ معاشی طورپر انتہائی نچلے سطح تک آگیا تھا ،امریکی قوم اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ افغانستان میں امریکہ کی سربراہی میں […]

ماہنامہ شریعت کااداریہ

امریکہ نے ایک بار پھر افغانستان میں اپنی فوج کو باقی رکھنے کا فیصلہ کرکے اپنی منافقانہ روش اورطوطاچشمی کا کھل کر ثبوت فراہم کردیاہے ۔

۲۰۱۲میں جب امریکہ معاشی طورپر انتہائی نچلے سطح تک آگیا تھا ،امریکی قوم اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ افغانستان میں امریکہ کی سربراہی میں لڑی جانے والی جنگ میں مجاہدین کے ہاتھوں شکست یقینی ہے اس لئے امریکی قوم نے اپنی حکومت سے بارہاپرزورمطالبات کئے کہ افغانستان سے اپنی فوجیں فوری طورپر واپس بلائیں اوراس بے فائدہ اورلاحاصل جنگ میں خرچ ہونے والےاربوں ڈالرزامریکی معیشت کو سہارادینے اور قوم کی ضروریات پوری کرنے میں صرف کئے جائیں ۔

            یہ وہ زمانہ تھا جب منتخب امریکی حکومت اپنی مدت پوری کرچکی تھی اور نئے صدارتی انتخابات کا اعلان کیا گیا تھا ، اوبامہ بھی [دوسری بار] صدارتی امیدوار تھا اس لئے اس نے امریکی قوم کی ہمدریاں حاصل کرنے کے لئے انتخابی کمپین کے دوران قوم کے ساتھ یہ وعدہ کیا کہ وہ دوسال کی قلیل مدت میں افغانستان سے اپنی فوجیں واپس امریکہ بلائے گا اورافغانستان میں جاری اس جنگ کاخاتمہ کردے گا ۔ابامہ نے فوج کی انخلاء کے لئے 31،دسمبر 2014کی تاریخ مقررکرلی ۔

            عالمی میڈیا نے اوبامہ کی اس بات کو پلو سے باندھا اورباربار نشرکرتارہا کہ 2014 افغانستان میں امریکی فوجیوں کا آخری سال ہوگا ،اس لئے کہ امریکہ افغانستان میں مزید اپنے مال وجان کو ضائع کرنانہیں چاہتا البتہ اگرافغانستان کے ساتھ سٹریٹجک معاہدہ پر دستخط ہوجاتے ہیں توامریکی فوجیوں کی ایک مخصوص تعداد افغانستان میں مقیم رہے گی جو کسی بھی قسم کی فوجی کارروائیوں میں حصہ نہیں لے گی ان کی ذمہ داری صرف افغان فورسز کو تربیت دینا ہوگی ۔پھر دنیا نے دیکھا کہ 2014 کادسمبر گزربھی گیا لیکن امریکی فوج ٹس سے مس نہ ہوئی ۔بلکہ اپنی ڈھٹائی اورہٹ دھرمی کااستعمال کرکے افغانستان میں مزید قیام کے لئے سٹریٹجک معاہد کا ڈرامہ رچایا۔کابل میں نئی حکومت بنتے ہی کٹھ پتلی سربراہان نے حلف برداری کے دوسرے دن انتہائی عجلت سے امریکہ کے ساتھ سٹریٹجک معاہدہ پر دستخط بھی کرلئے ۔

معاہدہ میں درج تھا کہ افغانستان میں باقی رہ جانے والے فوجیوں کی تعداد صرف 9800 ہوگی ۔قوم کو بہلانے اور دھوکہ میں رکھنے کے لئے یہ بات بڑے شدومد کے ساتھ کی جارہی تھی کہ فوجیوں کی یہ تعداد کسی بھی قسم کی جارحانہ کارروائی نہیں کرے گی لیکن امریکہ کی منافقت ملاحظہ فرمالیں کہ اس وقت کے امریکی وزیر دفاع چیک ہیگل نے جو ایک اچانک اور غیرعلانیہ دورے پر کابل آئے ہوئے تھے 7 دسمبر کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ امریکہ نے اپنا پلان تبدیل کیاہے اب ہمارے فوجی2016میں بھی افغانستان میں رہیں گے ، ان کی تعداد 9800 نہیں بلکہ 10800ہوگی ۔

اس کے علاوہ امریکی صدر ابامہ نے سٹریٹجک معاہدہ کرتے وقت کھلے الفاظ میں کہا تھا کہ افغانستان میں موجود 10800 امریکی فوجی 2016 کے اختتام تک بلا قید وشرط کے افغانستان سے نکالے جائیں گے ،لیکن 2015کے شروع ہوتے ہی امریکہ نے اپنی خصلت وعادت کے مطابق ایک بارپھر دوغلی پالیسی اختیارکرتے ہوئے اپنے وعدوں سے انحراف کیا اوراپنے مذموم عزائم ومقاصد کے حصول کے لئے افغانستان میں اپنے قیام کو طول دینے کے لئے حیلے بہانے تراشنا شروع کردیئے ہیں ۔ جس کاواضح ثبوت یہ ہے کہ افغانستان میں نیٹوکے سربراہ امریکی جنرل ،جنرل کمپبل نے امریکی حکومت سے افغانستان کے لئے مزید2300فوجی بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے ۔

اورحالیہ دنوں میں نئے امریکی وزیردفاع اشٹون کارٹرنے بھی کہا ہے کہ امریکی فوجیوں کی افغانستان سے انخلاء وقت اورحالات کے مطابق ہوگی [یعنی 2016کے آخرتک انخلاء یقینی نہیں ]۔ابامہ نے بھی کارٹر کی بات کی تائید کی ہے اوروہائیٹ ہاؤس کے ترجمان جن ساکی نے کہا ہے کہ اگرچہ وہائٹ ہاؤس نے ابھی تک اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے لیکن شائد اشرف غنی کے دورہ امریکہ میں صدر اوبامہ اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرلے ۔

یہ بات سب کو معلوم ہے کہ کٹھ پتلی حکمران اشرف غنی امریکی فوجیوں کی افغانستان سے رخصتی کے حق میں نہیں لہٰذافیصلہ یہی ہوگا کہ امریکہ کی مرضی ہے وہ جب تک چاہے افغانستان میں اپنی فوجیں رکھ سکتاہے ،اسے نہ اپنے کئے ہوئے وعدوں کی پرواہ ہے نہ معاہدوں کی پاسدار ی اس کے ہاں کوئی حیثیت رکھتی ہے اورنہ ہی دنیامیں کوئی ہے جواس سے پوچھنے کی جرأت کرسکے کہ وہ کیوں باربار اپنے وعدوں سے مکرتااور معاہدوں کو توڑتاہے ؟

قارئین کرام !        کیا اب یہ لوگ اس قابل ہیں کہ ان کے وعدوں اورمعاہدوں پر یقین کرکے کوئی فیصلہ کیا جائے ؟ نہیں ہرگز نہیں !

ہم پہلے بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ امریکی ایک دھوکہ باز،فریبی ،وعدہ خلاف ،مکاراورساتھ ساتھ انتہائی بزدل لوگ ہیں اس لئے ہم ان کے وعدوں اورمعاہدوں پریقین رکھتے ہیں ،نہ ان سے وعدوں کوعملی جامہ پہنانے کی توقع رکھتے ہیں اورنہ ہی ا ن کے وعدوں اورمعاہدوں کو خاطرمیں لاتے ہیں ۔

ہمیں یقین ہے کہ یہ ساری تگ ودو ،وعدے معاہدے دنیاکی آنکھوں دھول جھونکنا اورسادہ لوح لوگوں کو ورغلانے اورپھسلانے کی ایک ناکام کوشش ہے ۔ ایسانہیں ہے کہ ہم امریکیوں کے وقتی وعدوں سے خوش ہوکر ہم اپنے جاری مقدس جہاد کو روک لیں گے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارادشمن جو مذموم مقاصد واہداف لے کرافغانستان آیاتھا اوریہاں اربوں ڈالرز اورہزاروں جانیں گنوائیں ،ابھی تک انتہائی مکاری اورعیاری کے ساتھ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ہاتھ پیر ماررہاہے ۔ باوجود اس کے کہ ہمیں یقین ہے کہ دشمن حوصلہ ہارچکاہے اوردشمن کی فوج کلی طور پر میدان جنگ میں لڑنے سے قاصرہے پھر بھی ہم دشمن کے ساتھ طویل جنگ کے لئے ذہناً تیارہیں اوریہ کہ ہماری یہ جنگ ایک مقدس جنگ ہے جو کسی بھی مادی فوائد کے لئے نہیں اس لئے ہم نہ اس سے تھکنے والے ہیں اورنہ دشمن کے مقابلے میں حوصلہ ہارنے والے ۔اس لئے کہ ہم اس جہاد کو دین وملت کی دفاع کی خاطر اپنی اہم ذمہ داری سمجھتے ہوئے جاری رکھے ہوئے ہیں ،جب تک ہمارادشمن سرزمین افغانستان میں موجود رہے گا تب تک ہم اس جہاد کو جاری رکھیں گے ۔باقی نتائج کو اللہ تعالیٰ کے سپردکرتے ہیں ۔امیدہے کہ وہ ہماری کوششوں ،قربانیوں اور جذبوں کو ضائع نہیں کرے گا اوران کے بدلے افغانستان ،خطے اورپوری اسلامی دنیا کو اس مکار،جارح اور ظالم دشمن سے نجات دے لائے گا ۔ ان شاء اللہ