انصاف کی عدم موجودگی نے افغانستان کو خطرے سے روبرو کیا ہے

عدل و انصاف کی عدم موجودگی نے وطن عزیز کو چیلنج اور خطر سے روبرو کیا ہے۔ استعمارکے مظالم اور ناانصافیوں نے ہمارے ملک میں جنگ کےبازار کو گرم  کر رکھا ہے۔ استعمار نے عوام کو کئی حصوں میں بانٹ دیا ہے، ایک بڑے حصےجو وسیع اور محکم عوامی حمایت کا حامل ہے،(امارت اسلامیہ ) […]

عدل و انصاف کی عدم موجودگی نے وطن عزیز کو چیلنج اور خطر سے روبرو کیا ہے۔ استعمارکے مظالم اور ناانصافیوں نے ہمارے ملک میں جنگ کےبازار کو گرم  کر رکھا ہے۔ استعمار نے عوام کو کئی حصوں میں بانٹ دیا ہے، ایک بڑے حصےجو وسیع اور محکم عوامی حمایت کا حامل ہے،(امارت اسلامیہ ) کے خلاف  پروپیگنڈہ کررہا ہے، انہیں ملک کا دشمن کہتا ہے اور ان کے خیال ختم اور قتل ہونا چاہیے، اجبکہ اور گروہ جس کا کوئی عوامی حمایت او رنہ ہی قانونی حیثیت سے ہے،اسے عوام کے کندھوں پر بھٹادیا ہے،اسے اسلحہ اور فوجی تجہیزات فراہم کرتاہے، جنگی تربیت دیتا ہے اور اسےافغان بھائیوں  کے خلاف دشمنی پر مبنی جذبے سے تربیت دیتا ہے، تاکہ ان کے فکر کو  اصل دشمن جو استعمار ہے،کسی اور جانب مبذول کروادیں۔

استعمار کی دوسری ناانصافی یہ ہےکہ ہماری قسمت سے کھیل رہا ہے۔ مثال کے طور پر اپنی مذموم مقاصد کے لیے لویہ جرگہ کے نام سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے، جس نے اسی وجہ سے  ہمارے اس ملی اور ثقافتی لویہ جرگہ کے اعتماد کو صدمہ پہنچایا ہے، ملی زعیم اور رہبر کے انتخاب کے منصوبے کو بھی کھلم کھلے مداخلت کی وجہ سے بے اعتبار کیا، وہ لویہ جرگہ جس کے فیصلوں کو افغان عوام لبیک کہتا، سخت شرائط  میں قومی رہنما کے انتخاب سے ملک کو نجات دلاتا ، افراتفری اور اختلاف   کے دوران افغان عوام اس کی طرف  امید سے دیکھتے، اسے اپنے غیر عادلانہ اعمال کی وجہ سے بے اعتماد کردی۔

استعمار اور اس کے ساتھیوں کی ظالمانہ اور غیر عادلانہ اعمال کا ایک خطرناک پہلو ہمارے معاشرے  کا طبقاتی ہونا ہے، آج ہمارا معاشرہ تقسیم نظر آرہی ہے، بلکہ ایک غیر متجانس اور طبقاتی معاشرے کی جانب گامزن ہے۔ ایک گروہ  کوزندگی کے تمام سہولیات میسر ہے۔ اعلی تعلیمی ماحول، بہترٹرانسپورٹ،پانی، بجلی، ہسپتال، کلینک،کھیل کا میدان اوراس نوعیت کی دیگر سہولیات سے فائدہ اٹھا رہا ہے، لیکن اکثریت زندگی کے ابتدائی سہولیات سے محروم ہیں۔ پرائمری اسکول تک دسترس ہے اور نہ ہی کلینک کے حامل ہے،حتی صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ چند ہموطنوں کی زندگی اچھی ہے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کے محرومیت کے پیچھے کونسے راز ہیں؟ کیوں ہمارے معاشرے کو جان بوجھ کر طبقاتی تصادم کے خطرناک خندق کی جانب دھکیلا جارہاہے؟

استعمار کی دوسری بڑی ناانصافی اسلامی نظام کے قیام کاسدبا ب ہے،وہ افغانستان میں اسلامی نظام کا قیام نہیں چاہتا،  باوجود کہ یہ عالمی سطح پر مسلمات میں سے ہیں، کہ ہر ملت کو حق ہے کہ اپنے ملک میں اپنی ہی مرضی کے نظام کو نافذ کریں  اور یہ اقوام متحدہ کے منشور سےبھی  مطابقت رکھتا ہے۔استعمار ایسے حالت میں خلاف ورزیاں کررہا ہے ، جو ہر کسی سے بہتر جانتا ہے کہ ہماری عوام اپنی سرزمین پر خودمختار اسلامی حکومت چاہتی ہے، اجنبی کی جانب سے قائم کردہ فرمائشی حکومت اور انتظامیہ کو نہیں مانتی۔

خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں سنی اور شیعہ، پشتون اور تاجک، قومی اور لسانی اختلافات موجود نہیں ہے۔ ہمارا معاشرہ مکمل اسلامی منظم، متوازی اور معتدل معاشرہ ہے، اس کے باوجود عوامی ترکیب میں متعدد طبقات،مختلف اقوام اورکئی زبانیں شامل ہیں، لیکن دینی ہم آہنگی اور معشیت،ثقافت اور عادات کے یکساں ہونے اور قربت کی وجہ سے بھائیوں کی طرح زندگی گزاری اور بسر کررہے ہیں۔ اگرچہ استعمار نے مختلف طریقوں سے کوشش کی کہ ہمارے معاشرے کی اتحاد کو متضرر کریں، تاکہ گندے پانی میں مچھلیاں پکڑ لیں، لیکن الحمدللہ تاحال اس پر قادر نہیں ہوئے ہیں، البتہ ان کے طویل المدت منصوبے بہت گہرے ہیں،  اور اس بارے میں عوام کے سوچ اور توجہ کی زیادہ ضرورت ہے…( وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلاَّ بِأَهْلِهِ.. الفاطر-۴۳ )