اوبامہ کانیا اعلان ناکامی کی طرف ایک اورقدم

  ماہنامہ شریعت کا اداریہ ماہ جون کے پہلے عشرے میں عالمی میڈیاپر یہ خبریں نشرہوئیں کہ امریکہ کے سیاہ فام صدر اوبامانے افغانستان میں موجود اپنی قابض فوجوں کے اختیارات میں مزید اضافہ کردیا ہے تاکہ وہ کھلے دل اوربلاروک ٹوک مظلوم افغانوں پر ظلم کا بازارگرم رکھ سکیں ۔ اسی مہینے کےآخری عشرے […]

 

ماہنامہ شریعت کا اداریہ

ماہ جون کے پہلے عشرے میں عالمی میڈیاپر یہ خبریں نشرہوئیں کہ امریکہ کے سیاہ فام صدر اوبامانے افغانستان میں موجود اپنی قابض فوجوں کے اختیارات میں مزید اضافہ کردیا ہے تاکہ وہ کھلے دل اوربلاروک ٹوک مظلوم افغانوں پر ظلم کا بازارگرم رکھ سکیں ۔

اسی مہینے کےآخری عشرے میں میڈیاپر یہ خبریں آنے لگیں کہ اوبامہ کی طرف سے ملنے والے اختیارات کو عملی شکل دیتے ہوئے امریکی فوج نے افغانستان میں امارت اسلامیہ کے مجاہدین پر بمباری شروع کردی ہے ۔

امریکہ کے یہ اعلانات اوراقدامات  ایسے حالات میں ہیں کہ افغانستان پر امریکی یلغار سے لے کر آج تک ہماری مظلوم عوام کے خلاف امریکی بمباری اور وحشت ناک مظالم میں کوئی وقفہ نہیں آیاہے ۔

جی ہاں! آمنے سامنے لڑائی میں شکست،میدان جنگ سے فرار اوراپنے مراکز تک محدود رہنے کے بعدجب 2014میں امریکہ نے افغانستان میں اپنی کارروائیوں کے اختتام کا اعلان کیا اورکہا کہ اب ہماراکام صرف کابل حکومت کے کارندوں کی تربیت ہوگی۔ ان اعلانات سے امریکہ کامقصدافغانوں کو بہلانا اوران کی آنکھوں میں دھول جھونکنا تھا ،ان کا خیال تھا کہ اس طرح افغانستان کی عوام   امارت اسلامیہ کی تائید اورتعاون سے ہاتھ کھینچ کر کابل حکومت کا ساتھ دینے لگے گی ۔لیکن امریکہ کی بدقسمتی ہے کہ ان کی یہ پالیسی بالکل کامیاب نہ ہوسکی ،امریکہ نے دیکھ لیا کہ نہ صرف یہ کہ ان کے تربیت یافتہ فوج ،مزدور اور کٹھ پتلی ادارے کے خلاف افغان مسلمان عوام  کے دلوں میں  موجود نفرت میں کمی نہیں آئی اورنہ ہی یہ غیورافغان، مجاہدین کی مدد اورتعاون سے دستبردارہوئے بلکہ کٹھ پتلی ادارے کو مجاہدین کے خلاف اختیارات میں زیادتی  کے بعد جب مظلوم عوام پر ظلم اوروحشت میں زیادتی آئی تو ساتھ ہی ان کے خلاف پائی جانے والی نفرت میں بھی اضافہ ہوااورمجاہدین کے ساتھ عوام کی محبت اوربھی بڑھ گئی۔جس کانتیجہ یہ ہوا کہ وطن عزیز میں بڑے بڑے علاقے مجاہدین کے ہاتھ آگئے اورکٹھ پتلی فوج کی ایک کثیر تعداد ہلاک اور زخمی ہوگئی ۔اس کے ساتھ ہی  کٹھ پتلی فوج سے فوجیوں کی فرار کا گراف بھی انتہائی حدوں کو چھونے لگا اور کابل ادارے کے سقوط کااحتمال بڑھنے لگا تواپنی کٹھ پتلی فوج میں نئی روح ڈالنے کے لیے امریکہ نےحالیہ  نئے اعلانات واقدامات  کئے ۔

ہم جانتے ہیں کہ یہ اعلانات صرف اعلانات نہیں بلکہ ان کے نتیجے میں ایک بار پھر افغانوں کے گھروں پر مزید چھاپے پڑیں گے ،مجاہدین کے ساتھ روابط اور رشتہ داری کے الزام میں کئی نوجوان جیلوں میں ڈالے جائیں گے ،لوگوں کے گھر ،مساجد ،مدارس ،سکولز اورہسپتال بمباریوں کا نشانہ بنیں گے ۔بچے ،عورتیں اور ضعیف العمر افراد قتل ہوں گے ، کیمیائی مواد کے استعمال سے اس  کے برے اثرات مرتب ہوں گے ،افغانستان میں تخریب  وبربادی کی کمپین میں مزید تیزی آجائے گی اورلاکھوں مظلوم اورغریب عوام اپنے ہی ملک میں اپنے گاوں اورگھر چھوڑنے پرمجبور ہوجائیں گے ۔یہ سب کچھ امریکہ  کی عملی بمباری کے ساتھ لازم وملزوم ہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے قابض امریکیوں کو کیا فائدہ حاصل ہوگا؟ آیا اس سے امریکہ اور اس کی کٹھ پتلی کے خلاف  افغانوں کے دلوں میں پائی جانے والی نفر ت میں کمی آجائے گی ؟ کیا اس طرح افغان عوام قابض قوتوں کا قبضہ  تسلیم کرلے گی ؟یا ان کے خلاف جاری  مقدس مزاحمت میں کمی آجائے گی ؟ نہیں ہر گز نہیں ! کچھ بھی نہیں ہوگا البتہ اتنا ضرورہوگا کہ اس سے امریکہ کا بھیانک اوروحشت ناک چہرہ دنیا کے سامنے ظاہر ہوگا، ان کے خلاف افغانوں میں پائی جانے والی نفرت میں مزید اضافہ ہوگا ، امریکیوں کے مقابلے میں جاری جہادی کارراوئیاں  مزید تیزہوں گی ، عوام میں وحدت اور اتفاق کی قائم فضا میں مزید استحکام پیداہوگا ، عوام کے دلوں میں مجاہدین کی محبت اوربھی زیادہ راسخ ہوجائے گی اورامریکہ کی منافقت مزید کھل کر سامنے آئے گی  کہ ایک طرف تو یہ لوگ صلح کی باتیں کرتے ہیں اوردوسری طرف جنگ کو طول دینے اوربڑھانے کے اقدامات کررہا ہے۔

ہم گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے امریکہ کے ساتھ تاریخ انسانی کی سب سے بڑی جنگ لڑرہے ہیں اس لئے ہم امریکہ کی ساری کمزوریوں کوخوب جانتے ہیں ،ان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے مذموم مقاصد کے حصول میں اندھے بن جاتے ہیں اوردشمن کی حیثیت دیکھے بغیر حملہ کرتے ہیں ،ہمیشہ اپنے دشمن کو اپنے سے کم ترسمجھتے ہیں اوریہی ان کی تباہی وبربادی کا سبب ہے

امریکہ نے تمام مسلمانوں کے خلاف جنگ کا اعلان کرکے افغانستان پر حملہ کرنے سے  اس جنگ کا آغاز کیا تو افغان عوام کا قابض قوتوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا اور تمام وفادارمسلمانوں کا افغان عوام کے ساتھ تعاون اورمدد کے لئے خود کومکلف سمجھنا ایک طبعی امر ہے ۔لیکن امریکیوں کی حماقت دیکھئے کہ  وہ اس بات کا ادراک نہ کرسکے اور طالبان کے ایک عظیم لشکر کو ایک چھوٹا ساگروہ خیال کرتے ہوئے چند دنوں میں ان سے نمٹنے اور جنگ جیتنے کا خواب  آنکھوں میں سجائے  افغانستان پر چڑھ دوڑا۔لیکن ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا اس لئے کہ  طالبان کے ساتھ ساتھ پور ے ملک کے مخلص مسلمان بھی  امریکہ اور اس کے حواریوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے  کیونکہ یہ جنگ صرف طالبان کے خلاف نہیں بلکہ پوری  ملت کے خلاف تھی۔

امریکہ اوراس کے اتحادیوں نے افغانوں کے خلا ف  اپنی ساری قوت اور ٹیکنالوجی استعمال کی ،ظلم اوروحشت کاہرطریقہ آزماتے ہوئے ہرطرح کی مالی اورجانی نقصانات پہنچائے لیکن ان سب کے باوجود وہ افغان عوام کے عزائم کو ہلانہ سکے اورنہ ہی آئندہ اس طرح کی کوئی امید ہے کیونکہ  یہ مضبوط اورپائیدارعزائم ہیں یہ کبھی بھی بدل نہیں سکتے اس لئے امریکہ کو چاہئے کہ مزید دل کوبہلا ناچھوڑدے اوراپنی اخلاقی ذمہ داری نبھاتے ہوئے  اپنی شکست تسلیم کرلے ،افغان عوام سے معافی  اورپرامن خروج کی راہ طلب کرے ورنہ ذلت ورسوائی کے ساتھ بھاگ جانےکے دن تو ویسے بھی قریب ہیں پھر کف افسوس ملنے سے کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔