اگر حملہ آوروں کے انخلا کی مدت میں توسیع کی جائے؟

آج کی بات امریکہ میں افغانستان سے متعلق کانگریس کی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بائیڈن انتظامیہ کو افغانستان سے فوجیوں کے انخلا کی مدت میں توسیع کرنے کی سفارش کی ہے، کانگریس کی کمیٹی نے الزام لگایا ہے کہ امارت اسلامیہ نے دوحہ معاہدے میں کئے گئے وعدوں کی پاسداری نہیں […]

آج کی بات

امریکہ میں افغانستان سے متعلق کانگریس کی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بائیڈن انتظامیہ کو افغانستان سے فوجیوں کے انخلا کی مدت میں توسیع کرنے کی سفارش کی ہے، کانگریس کی کمیٹی نے الزام لگایا ہے کہ امارت اسلامیہ نے دوحہ معاہدے میں کئے گئے وعدوں کی پاسداری نہیں کی ہے۔
اس رپورٹ میں ان امور اور خدشات کا ذکر کیا گیا ہے جو غیر حقیقت پسندانہ ہیں، رپورٹ کی ان کوتاہیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی نے افغانستان کی صورتحال کا صحیح اندازہ نہیں لگایا ہے اور سپر کردہ کام کے بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دی ہے۔
مذکورہ کمیٹی میں جنرل ڈنفورڈ جیسے لوگوں کی موجودگی قابل غور ہے، ڈنفورڈ نے افغانستان میں اپنے دور میں شکست کھائی، اس لئے افغان مسئلہ کے ساتھ امتیازی اور جذباتی سلوک اختیار کرتا ہے۔
دوحہ معاہدے کو ان لوگوں کی نگاہ سے نہیں دیکھا جانا چاہئے جو جنگوں اور قتل و غارت گری میں اپنے مفادات کے خواہاں ہیں اور اقوام عالم کے عام مفادات میں رکاوٹ ہیں۔ اگر خدانخواستہ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کئی گئی تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے اور مخالف فریق اس کا ذمہ دار ہوگا۔
دوحہ معاہدہ امارت اسلامیہ اور امریکہ کی مذاکرات کرنے والی ٹیموں کی بہت کوششوں ، مشاورت اور مذاکرات کا ثمرہ ہے اور اس مسئلے کو حل کرنے کا یہ واحد معقول اور پائدار طریقہ ہے، اگر دوحہ معاہدہ ختم کیا گیا تو یہ بڑی جنگ کا باعث ہوگی، اور اس کی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوگی۔
نئی امریکی انتظامیہ کو دوحہ معاہدے کے بارے میں جذباتی رد عمل ظاہر نہیں کرنا چاہئے اور افغانستان میں جنگ کو جاری رکھنے، جنگجوؤں اور بدعنوان حکمرانوں پر سرمایہ کاری نہ کرے، امارت اسلامیہ نے دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا ہے اور اپنے وعدوں کی پاسداری کی ہے، معاہدے میں کئے گئے وعدوں کے پابند ہے اور اس معاہدے کے مکمل نفاذ کو افغانستان کے جاری بحران کا فائدہ مند حل سمجھتی ہے، لہذا ایسے اقدامات اور تاثرات سے باز آنا چاہئے جو ہمیں جنگ کی طرف دھکیل کررہے ہیں کیونکہ وہ صورتحال امریکہ کے مفاد میں تھی اور نہ ہی افغان عوام کے مفاد میں تھی۔