بات ہیلی کاپٹروں کی فروخت تک پہنچی

آج کی بات افغانستان میں اپنے اخراجات کی نگرانی کرنے والے امریکی ادارے “سیگار” نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ کابل انتظامیہ کو فراہم کئے گئے 16 طیاروں جن کی قیمت 500 ملین ڈالر سے زیادہ ہے، کو 40 ہزار ڈالر پر فروخت کیا گیا ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے اس […]

آج کی بات

افغانستان میں اپنے اخراجات کی نگرانی کرنے والے امریکی ادارے “سیگار” نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ کابل انتظامیہ کو فراہم کئے گئے 16 طیاروں جن کی قیمت 500 ملین ڈالر سے زیادہ ہے، کو 40 ہزار ڈالر پر فروخت کیا گیا ہے۔
اپنے قیام کے بعد سے اس ادارے نے جو بھی رپورٹ شائع کی ہے اس میں کابل انتظامیہ اور اس کی افواج کی نااہلی اور بدعنوانی کا ذکر کیا گیا ہے، اور امریکی کانگریس کو بتایا گیا ہے کہ امریکی عوام کے ٹیکس کی رقم ضائع نہ کی جائے۔
ایک اور رپورٹ میں اس ادارے نے کہا ہے کہ کابل حکومت کو اپنی فعالیت برقرار رکھنے کے لئے غیر ملکی افواج کی مدد کی ضرورت ہے اور اگر اس کی مدد نہ کی گئی تو اس کی بقا کو خطرہ ہے، سیگار نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے کہا ہے کہ کابل حکومت کے فضائیہ کی مرمت سو فیصد غیر ملکی کرتے ہیں اور اگر غیر ملکی افواج یا پرائیوٹ اہل کار نہ ہو تو یہ طیارے صرف چند مہینے قابل استعمال ہوں گے، اس کے بعد اس قابل نہیں ہوں گے کہ جنگ میں بڑی تعداد میں حصہ لیں۔
سیگار کے سربراہ نے ایک تحقیقاتی ادارہ کو رپورٹ پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ ایک بدعنوان اور نااہل حکومت کبھی بھی امریکی مفادات کا تحفظ نہیں کرسکتی۔
یہ بات واضح ہے کہ وطن عزیز پر حملے کے بعد امریکہ نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے افغانوں پر ایک فرسودہ نظام اور انتظامیہ مسلط کیا، اس نے عوام کو دھوکہ دینے کے لئے متعدد بار انتخابی ڈراموں کا اعلان کیا لیکن حقیقت میں حکمرانوں کی تقرری کے فیصلے امریکی حکام کرتے، کابل انتظامیہ کے اہم عہدوں پر ایسے افراد کو تعینات کیا جاتا جو کسی وقت افغانستان کو تقسیم کرنے کے دہانے پر پہنچایا تھا اور وہ اپنے وقت میں فتنہ و فساد کے سرخیل تھے۔
اب اس ناکام تجربے کے 19 برس گزرنے کے بعد امریکہ اور مغرب کو آہستہ آہستہ احساس ہورہا ہے کہ افغانستان کے بارے میں ان کی سوچ ہر لحاظ سے غلط تھی اور اس جغرافیہ میں نہ تو وہ اور نہ ہی اپنے کٹھ پتلی حکمرانوں کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد تک پہنچ سکتے ہیں۔
ناکام تجربات کے بعد دنیا کے لئے سب سے بہترین اور موزوں طریقہ یہ ہے کہ وہ حقائق کو تسلیم کرے، ان ناکام تجربات کو دہرانے سے گریز کرے جو دو دہائیوں میں ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا، اور خاص طور پر اپنے ان کٹھ پتلی حکمرانوں کی ہر قسم حمایت اور ہمدردی سے اجتناب کرے جو عالمی سطح پر اس کے لئے شرم اور بدنامی کا سبب بنا ہے۔