کابل

خودکشی کرنے والے پچاس خوش قسمت

خودکشی کرنے والے پچاس خوش قسمت

خزیمہ یاسین
اسلام و کفر کی جنگ میں اللہ کے مجاہدین اور شیطان کے فوجیوں کے مابین دماغی برتری کا فرق حق و باطل کی فتح و شکست کو واضح کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس سے پہلی اُمتوں میں جب سے سچائی و جھوٹ کے معرکوں کے لیے جہاد فرض کیا گیا ہے، تب سے راسخ العقیدہ اور پختہ نظریاتی فکر کے مجاہدین جنگ کے میدان میں ہمیشہ سربلند رہے ہیں۔ جب کہ شیطانی مقاصد کے لیے لڑنے والوں کی ذہنی حالت ہمیشہ خراب اور شکست خوردہ رہی ہے۔ دو مختلف ذہنوں کی اس حالت کے پسِ پردہ جو اسباب کارفرما ہیں، انہیں روحانیت اور شیطنت کہا جاتا ہے۔
روحِ اسلام ہی ایک مجاہد کے دل و دماغ کو طاقت وَر اور مضبوط بناتی ہے۔ جب کہ شیطان کی پیروی کافر و منافق اور نام نہاد مومن کے دل و دماغ کو کمزور اور بوسیدہ بنا دیتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حماس کی طرف سے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے حملے کے بعد فلسطین سے کہیں زیادہ نقصان کا سامنا اسرائیل کو ہے۔ 7 اکتوبر کے دن اسرائیل کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے اب تک تحقیقاتی کمیٹیاں ہوم ورک میں مشغول ہیں۔ ایسے ہی ایک نقصان کے حوالے سے اسرائیلی اخبار ‘ہارٹیز’ نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں حماس کی طرف سے 7 اکتوبر کے بعد نفسیاتی دباؤ کا شکار ہونے والے یہودیوں کی خودکشیوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ عبرانی اخبار ‘ہارٹیز’ نے لکھا ہے:
جب حماس کے مجاہدین نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا، تب غزہ کی پٹی سے متصل ‘ریئم’ نامی ایک یہودی بستی میں “نووا” نامی میوزک کنسرٹ چل رہا تھا۔ ‘مبینہ طور پر’ یہ بستی بھی “طوفان الاقصی” کے میزائلوں کا نشانہ بنی تھی۔ جس کے نتیجے میں کئی یہودی ہلاک ہو گئے تھے۔ جب کہ زندہ یا زخمی حالت میں بچ جانے والوں کی مجاہدین کے خوف کی وجہ سے ذہنی حالت اِس قدر بگڑ گئی تھی کہ دسیوں افراد کو دماغی صحت بہتر بنانے کے لیے زبردستی اسپتالوں میں داخل کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے اسرائیلی پارلی منٹ نے ‘اسٹیٹ مانیٹرنگ کمیٹی’ تشکیل دی تھی، جس کا مقصد 7 اکتوبر کو اندرونِ اسرائیل ہونے والے نقصانات کا جائزہ لینا تھا۔
اسی جائزے کے تناظر میں ‘نووا’ کنسرٹ کے مسائل بھی سامنے آئے ہیں۔ جس کے مطابق تب تقریب میں شامل اور حادثے سے بچ جانے والے افراد سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ اِنہی تحقیقات کے حوالے سے تقریب کے ایک عینی شاہد ‘غائے بن شمعون’ (Guy Ben Shimon) نے بتایا ہے:
“نووا کنسرٹ سے بچ جانے والے افراد میں سے 50 خوش قسمتوں نے حماس کے حملے کی وجہ سے 7 اکتوبر سے 8 دسمبر تک دو ماہ کے دورانیے میں خودکشی کر لی تھی۔ جب کہ اُسی تقریب کے بچ جانے والوں میں سے اگر کسی نے 8 دسمبر کے بعد خودکشی کی ہو تو اس کا فی الوقت کوئی ریکارڈ سامنے نہیں ہے۔ تحقیقاتی طور پر مذکورہ خودکشی کرنے والوں کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ افراد حماس کے حملے کی وجہ سے نفسیاتی طور پر “پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس شاک” میں مبتلا ہو گئے تھے۔”
یہ ایک ایسی بیماری ہے، جو بدسلوکی، حادثے، موت، مالی بحران، دیوالیہ پن، بے وفائی، نسل پرستی، تشدد اور جنگ جیسے عوامل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ بیماری انسان کے جذباتی توازن میں نمایاں اور شدید نوعیت کا خلل پیدا کر دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے انسان دماغی طور پر خود پر قابو رکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ چناں چہ اگر درست روحانی رہنمائی نہ مل سکے تو اس کا آخری اور لازمی نتیجہ خودکشی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
جب انسان اس بیماری کا شکار ہو جاتا ہے تو اُس کا دماغ ہر وقت اُس واقعے، سانحے اور صدمے کے منظر کو خود میں دُہراتا رہتا ہے، جو اس دماغی تناؤ کا باعث بنا ہوتا ہے۔ اس بیماری کا مریض اپنی ذات سے لاپروا اور بے حس ہو جاتا ہے۔ اس مریض کا صرف دماغ ہی کام کر رہا ہوتا ہے، البتہ دماغ کا کام بھی منفی رُخ پر چل رہا ہوتا ہے۔ جس سے دماغ وقت سے پہلے مُردہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
البتہ یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ انسانی دماغ تناؤ کی ایسی صورتِ حال کا شکار کیوں ہوتا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس حالت میں مبتلا ہونے والا انسان حادثات و سانحات اور واقعات و حالات سے لبریز اس زندگی میں اپنے لیے یہ طے کر لیتا ہے کہ “میرے ساتھ ایسا کبھی بھی اور بالکل بھی نہیں ہو سکتا۔” لہذاجب ایسا کوئی غیرمتوقع واقعہ رونما ہوتا ہے تو چوں کہ اُس انسان کی اپنے تئیں طے کردہ زندگی میں ایسے کسی واقعے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی تو غیرگنجائشی طور پر نمودار ہونے والا یہ حادثہ دماغی توازن میں خلل کا باعث بن جاتا ہے۔
دماغی توازن کے خراب ہونے کی ایک دوسری، مگر اہم ترین وجہ انسان کا روحانی سلسلوں سے رابطے کا منقطع ہو جانا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 7 اکتوبر کے دن ‘نووا میوزک کنسرٹ’ کے متاثرین میں ریکارڈ کے مطابق 50 افراد نے خودکشی کر لی تھی۔جب کہ یہ 50 وہ افراد تھے، جو حملے میں زخمی ہونے اور کسی بھی نقصان سے دوچار ہونے سے بچ گئے تھے۔ مگر چوں کہ روحانی طاقت اور خدا سے کنارہ کشی کی وجہ سے اُن کے دماغ اس قدر کمزور اور وہمی افکار کا شکار ہو چکے تھے کہ وہ حملے میں ہلاک ہونے سے بچ جانے کے باوجود حملے کا صدمہ برداشت نہیں کر پائے اور اپنے تئیں خود کو ہلاک کر لیا۔
دوسری طرف غزہ کے مظلوم ترین مسلمان ہیں، جو ہر لمحہ اسرائیلی فوج کے مظالم، درندگی، اندھی بمباری، گرفتاری کے خوف، تشدد کے ڈر اور ناگہانی موت کے سائے میں جی رہے ہیں، مگر اُن کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی اس اعصاب شکن حالت میں مسکرا رہے ہیں اور ہر وقت ‘الحمد للہ رب العالمین’ کو وردِزبان اور حرزِجان بنائے ہوئے ہیں۔شہید تو ہو رہے ہیں، مگر خودکشی کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آ سکا۔
یہ دراصل دل کا وہ سکون اور روح کا وہ قرار ہے، جو صرف توحیدِ اِلٰہی اور رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیروکاروں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔
چناں چہ ‘نووا میوزک کنسرٹ’ کے عینی گواہ ‘غائے بن شمعون’ نے یہ بھی بتایا ہے کہ “اس پروگرام میں شریک میرے بہت سے ایسے دوستوں کو بھی زبردستی ‘دماغی بحالی کے مراکز’ میں داخل کرایا گیا ہے، جو اس حملے کے بعد دماغی صحت سے محروم ہونے کے باعث بستر سے نہیں اُٹھ سکے تھے۔”
یہاں دل چسپ صورتِ حال یہ ہے کہ غائے بن شمعون کی گواہی سے پہلے اسرائیلی وزارتِ صحت نے خودکشی کے ایسے واقعات کا سِرے سے ہی انکار کرتے ہوئے اسے خودساختہ کہانی قرار دیا تھا، لیکن غائے بن شمعون کی گواہی کے بعد اسرائیلی وزارتِ صحت کے متعلقہ کارکن کو خفگی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
علاوہ ازیں مزید دل چسپ معاملہ یہ ہے کہ عبرانی اخبار ‘ہارٹیز’ کی رپورٹ کے مطابق ‘نووا میوزک کنسرٹ’ کے حوالے سے نومبر 2023 کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ نووا کنسرٹ پر حماس کا ایک بھی میزائل نہیں گِرا تھا۔ کیوں کہ حماس کو نووا کنسرٹ بارے بالکل کوئی معلومات نہیں تھیں۔ البتہ نووا کنسرٹ پر ہونے والی بمباری بجائے خود اسرائیلی طیاروں کی کارروائی تھی، جو کہ حماس کے حملے کے ردِعمل میں کی جا رہی تھی۔ جب کہ طیاروں کے پائلٹ حماس کے حملے سے اِس قدر بدحواس ہو چکے اور دماغی توازن کے بگاڑ کا شکار ہو گئے تھے کہ اُنہیں بمباری کے دوران یہ تک سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ غزہ کے مسلمانوں پر بمباری کر رہے ہیں یا اسرائیلی بستی ریئم کے یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتار رہے ہیں۔