بس یہی تعاون!!!؟

مشترکہ حکومت کے دونوں سربراہان عین اور غین دوطیاروں میں دوقافلوں کے ساتھ ایک ہی مشترکہ ایجنڈا لے کر بالآخر کیمپ ڈیوڈ پہنچ گئے ۔ وہ جگہ جو ان کی امیدوں کا آخری ٹھکانہ ہے ۔وہ جو ان بیچارے جمہوریوں کے خالی کچکول کےلیے باباکا دربار ہے ۔ ہاں وہی واشنگٹن، عین اور غین کے […]

مشترکہ حکومت کے دونوں سربراہان عین اور غین دوطیاروں میں دوقافلوں کے ساتھ ایک ہی مشترکہ ایجنڈا لے کر بالآخر کیمپ ڈیوڈ پہنچ گئے ۔

وہ جگہ جو ان کی امیدوں کا آخری ٹھکانہ ہے ۔وہ جو ان بیچارے جمہوریوں کے خالی کچکول کےلیے باباکا دربار ہے ۔ ہاں وہی واشنگٹن، عین اور غین کے لبرل قافلے جس کی تقدس کے قائل ہیں ۔ وہی جگہ جو غیر مسلم خاتون اول کے وسیلے سے ارگ صدارتی محل کے لیے سسرال سمجھا جاتا ہے ۔ مختصریہ کہ غنی اورعبداللہ اپنے اس محسن کی زیارت کے لئےگئے جس نے ان دونوں کے سروں پر شاہی تاج رکھاتھا۔ اب عین اور غین دونوں صدارتی محلے کی اطاقوں میں بیٹھ کر الگ الگ شاہی فرامین صادر کررہے ہیں ۔

بہر صورت امریکا کی جانب اشرف غنی اور اس کی حکومت کا دورہ یہ کوئی ایساعام دورہ نہیں تھاجس طرح دیگرممالک کے لوگ مختلف ممالک کوسفارتی دوروں پر جاتے ہیں ۔ بلکہ امریکا کی جانب ایک ایسا دورہ تھا جس سے کابل انتظامیہ کی تمام تر امیدیں، آرزوئیں ، غم اور خوشیاں سب وابستہ ہیں ۔اگر یہ دورہ کامیاب ہوجائے تو اس سے کابل انتظامیہ کو نئی روح ملے گی اور اگر ناکام ہو جائے تو گویا زندگی ادھور رہ گئی ۔ اس لیے کہ انگریزوں ، روسیوں اور امریکیوں کے تجربات ہمارے سامنے ہیں کہ ان کی کٹھ پتلیوں کی بقا اور فنا ان کے آقاوں کی موجودگی پر موقوف ہوتی ہے ۔ جیسے ہی آقاوں کارخ پھر جاتا ہے ان کی زوال کاآغاز ہوجاتا ہے ۔

کہا جاتا ہے کہ اشرف غنی اور عبداللہ دونوں اپنے ساتھ 90 ۔ 90 افراد کا قافلہ لے کر گئے تھے۔ جس سے خودبخودان کے آپس کی بداعتمادی کی غماضی ملتی ہے ۔ استاد اوباما نےان کے درمیان فاصلہ اور بڑھادیا۔ کیوں کہ اس نے صرف اشرف غنی سے ملاقات کی اور ڈاکٹرصاحب کو سکیورٹی کے مشیر سوزن رائس سے بہلایا۔ دوسری بات یہ کہ کانگریس میں اپنے امریکی نژاد بانس نما شخصیت کے لیے خوب تالیاں پٹوائی گئیں ۔ مگرڈبل عبداللہ شاید انہیں ایرانی یا روسی نظر آئے ۔ اتنا ہی لاڈ دیا ۔ یہیں سے مفادات پر کچھ روشنی پڑتی ہے کہ ایک امریکی مفادات کا محافظ ہے اوردوسراخفیہ طورپر ایرانی اور روسی مصالح کا وفادار ہے ۔ بس ایک نکتہ تھا جس پر دونوں عین غین کا اتفاق تھا وہ یہ کہ امریکی جارحیت پسندوں کا یہاں قیام یا انخلاء۔ دونوں ڈاکٹروں نے بیک زبان امریکی سیاست دانوں سے منت سماجت کی کہ اپنے فوجیوں کو جلد نہ نکالیں ۔ اور دوسرا مطالبہ نقد ڈالرکا ہوگا ۔ دونوں نے امریکی آقاوں سےامید کی کہ ماضی میں ان سے ہونے والے 5ارب ڈالر کے امداد کا وعدہ پورا کیا جائے ۔ ان کےیہ دو بنیادی مطالبات اس لیے تھے کہ کابل کی موجودہ انتظامیہ امریکی فوج اور امریکی ڈالرکے بل پر ہی قائم کیا گیا ہے اور اس کی بقا بھی انہیں دو چیزوں پر موقوف ہے ۔ امریکا اگران کی حفاظت نہیں کرے گا یا انہیں پیسے نہیں دے گا توکابل کی یہ کٹھ پتلی انتظامیہ حریت پسند عوام کے مقابلے میں ٹھہرنہ سکے گا۔ بالکل اسی طرح منظرسے ہٹادیا جائے گاجس طرح ماضی میں دیگر کٹھ پتلی نظاموں کو افغانوں نے خاک میں ملادیا تھا۔

مگر جناب اوباما نے فی الحال صرف 10 ہزار افواج کے قیام کا وعدہ کیا ہے ۔ پیسوں کے لیے اپنا پرانا وعدہ بس ایک بار پھر دہرایا اور فعلا ایک پیسہ نہیں دیا

اب بات یہ ہے کہ ان کے ساتھ وفد میں گئے ہوئے90 افراد کا لشکرجرار یا کابل میں ان کی فتح کے منتظر لوگ سوال کریں گے کہ بس اتنی ہی امداد؟!

اسی امداد کے لیے تو اشرف غنی نے سکیورٹی معاہدے کے نام پروطن فروشی کی دستاویزپر بہت پہلے دستخط کردیے تھے ۔ افغانوں کے قتل عام اور اپنے ملک کی تباہی کے لیے دائمی اڈوں کی راہ ہموار کی مگر اسکے باوجود بھی وہ مجاہدین کی تلواروں سے نہ بچ سکے ۔

رہی بات فوجیوں کی تو وہ امریکا نے نہ اشرف کی درخواست پر ٹھہرانے کا فیصلہ کیا ہے اور نہ انخلاء کا ۔ یہ توان کی اپنی اسٹریٹجی ہے کہ جب ان پر مجاہدین کے حملے بڑھ بڑھ جاتے ہیں تو انخلاء کی باتیں کرنے لگتے ہیں اور جب حالات کچھ سازگار ہوجاتے ہیں تو پھر سے قیام کے اعلانات کرنے لگ جاتے ہیں ۔

ان دس ہزارفوجیوں سے عین اور غین کو کوئی درد کا درماں ملتا ہے تو ملے یا اوباما کا رعب ودبدبہ قائم رہتا ہے تو رہے ۔ مگر افغان عوام کو تو نقصان کے علاوہ کچھ بھی نہیں ملنے والا۔اس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا ۔ ڈیڑھ لاکھ کی فوج کچھ نہ کرسکی تو آٹھ یا دس ہزار کی فوج کیا برج گرائے گی ۔ افغانوں کے جہاد کی تلوار اس وقت تک چلتی رہے گی جب تک سارے کہ سارے جارحیت پسند نکل نہیں جاتے اور آزادی کا پھریرا لہرا نہیں جاتا ۔

خلاصہ یہ کہ عین اور غین کو اس دورے سے کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا ۔ بلکہ قومی خیانت کا ایک اور تاریخی داغ اپنے چہرے پر لگا کر آگئے ۔ نہ پیسے حاصل کرسکے اور نہ دوسرے مذموم مقاصد حاصل کرپائے ۔ ( خَسِرَالدُّنیا والآخِرَة)