بین الافغان مذاکرات کے طریق کار پر اتفاق رائے ایک مثبت اقدام ہے

آج کی بات گذشتہ روز امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کے ترجمان نے اس خبر اور پیشرفت سے میڈیا کو آگاہ کیا کہ امارت اسلامیہ اور افغان دھڑوں کے مابین طویل بحث و مباحثے کے بعد بالآخر بین الافغان مذاکرات کے طرز عمل کے 21 نکات پر اتفاق ہوگیا۔ اگرچہ کابل انتظامیہ کی جانب سے […]

آج کی بات

گذشتہ روز امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کے ترجمان نے اس خبر اور پیشرفت سے میڈیا کو آگاہ کیا کہ امارت اسلامیہ اور افغان دھڑوں کے مابین طویل بحث و مباحثے کے بعد بالآخر بین الافغان مذاکرات کے طرز عمل کے 21 نکات پر اتفاق ہوگیا۔
اگرچہ کابل انتظامیہ کی جانب سے ابھی تک کوئی واضح ردعمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن افغان سیاسی جماعتوں کی جانب سے قطر جانے والے وفد کے ترجمان نادر نادری نے اعتراف کیا کہ مجموعی طریقہ کار پر اتفاق ہوگیا ہے تاہم مقدمہ پر مزید بحث کی ضرورت ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ مذاکراتی ٹیم کے سربراہ کے دورہ کابل کے بعد کابل انتظامیہ کے اعلی حکام نے اس طرز عمل کی مخالفت کی ہے اور وہ ایک بار پھر امن عمل میں رکاوٹیں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
جب امارت اسلامیہ نے دوحہ میں امریکی افواج کے انخلا کے لئے امریکہ کے ساتھ معاہدہ کیا تو کابل انتظامیہ اور اس کے حامیوں نے قوم کو دھوکہ دینے کے لئے افواہیں پھیلائیں کہ غیر ملکیوں کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد طالبان ملک کے اندرونی تنازع کے سیاسی حل کے لئے پرعزم نہیں ہیں۔
لیکن بین الافغان مذاکرات کے طریق کار پر اتفاق رائے نے ایسی افواہوں کو جھوٹ ثابت کردیا اور یہ ثابت کر دیا کہ امارت اسلامیہ پہلے سے کہیں زیادہ پرعزم ہے کہ وہ ملک میں امن قائم کرے اور ایک خالص اسلامی نظام قائم کرے۔