بین الاقوامی امداد، افغانستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی

آج کی بات دو روزہ افغان ڈونر کانفرنس جینوا میں شروع ہوئی، جس میں افغانستان کو مالی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا جائے گا۔ افغانستان اور افغان عوام کے لئے تعاون اور امداد قابل تحسین ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ بے لوث امداد ہو اور ان لوگوں تک پہونچیں جو واقعتا اس کے […]

آج کی بات

دو روزہ افغان ڈونر کانفرنس جینوا میں شروع ہوئی، جس میں افغانستان کو مالی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا جائے گا۔ افغانستان اور افغان عوام کے لئے تعاون اور امداد قابل تحسین ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ بے لوث امداد ہو اور ان لوگوں تک پہونچیں جو واقعتا اس کے مستحق ہیں۔
گذشتہ دو دہائیوں کے دوران افغانستان اور افغان عوام کو جو امداد دی گئی ہے، اس کا لوگوں کی زندگی پر مثبت اثر نہیں پڑا ہے، مثلا زراعت نے ترقی کی ہے، نہ صنعت میں بہتری آئی ہے اور نہ ہی معیاری تعلیمی قائم ہوئے ہیں، صحت کے میدان میں بھی ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی ہے تا کہ افغانی اپنے ہی ملک میں کسی بیماری کی تشخیص یا علاج کر سکیں۔
بین الاقوامی امداد کی عدم موجودگی اور مثبت اثرات کی کمی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امداد کا زیادہ تر حصہ کابل کی بدعنوان حکومت یا ان غیر سرکاری تنظیموں کو فراہم کیا جاتا رہا جنہوں نے آپس میں بندربانٹ کے لئے کرپشن مافیا تشکیل دیئے ہیں جو افغانستان کو ملنے والی امداد کی یہ رقم قانونی اور زیادہ قانونی ذرائع سے غیر ملکی بینکوں میں منتقل کر دی گئی۔
جب 2014 میں اشرف غنی صدارتی محل میں داخل ہوئے تو بدعنوان عناصر ، قاتلوں اور غداروں کو ایک بار پھر اعلی عہدوں پر مقرر کیا گیا۔ بدعنوانی ، غبن ، غصب اور لوٹ ماری میں اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں لوگوں کی معاشی اور معاشرتی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ اشرف غنی نے اپنی انتخابی مہم کے لئے قومی خزانے سے کروڑوں ڈالر نکال دیئے، اور نامعلوم طریقوں سے خرچ کیا ، یہ وہ رقم تھی جو انہوں نے ٹیکس کے نام پر غریب عوام سے لی تھی۔ کورونا کی وبا پھیل جانے کے بعد عالمی برادری نے افغانستان کو کچھ نقد رقم اور طبی سامان عطیہ کیا، نقد رقم کا تو کوئی سراغ نہیں مل سکا اور کورونا مریضوں کے لئے عطیہ کردہ وینٹی لیٹر وغیرہ کو بھی پڑوسی ممالک پر فروخت کردیا گیا۔
امارت اسلامیہ، افغانستان اور افغان عوام کے لئے بین الاقوامی امداد کا خیرمقدم کرتی ہے، امداد فراہم کنندگان کے ساتھ شفاف طریقے سے امداد کی تقسیم میں تعاون کے لئے تیار ہے اور یہ اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے کہ یہ امداد مستحق لوگوں تک دیانتداری کے ساتھ پہنچائے۔
اگر جنیوا کانفرنس میں اعلان کی جانے والی امداد کو کابل حکومت کے حوالے کردیا گیا تو اس سے مظلوم اور غریب افغان عوام کی زندگیوں پر کوئی مثبت فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ماضی کی طرح افغان عوام کے نام پر وصول کی جانے والی امداد کو کابل حکومت میں شامل ٹیکنوکریٹ اور جنگجوؤں کے کرپٹ مافیا آپس میں تقسیم کرے گا اور عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتے رہیں گے۔