جنگ بندی اور پھانسی بیک وقت نہیں ہوسکتی

آج کی بات کابل کی کٹھ پتلی حکومت کے اعلی حکام امن عمل میں سست رفتار پیشرفت کے دوران طالبان قیدیوں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور ساتھ ہی جنگ بندی کے نام پر ان کے خلاف جاری جنگ کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس طرح کے متضاد ارادوں اور مطالبات سے […]

آج کی بات

کابل کی کٹھ پتلی حکومت کے اعلی حکام امن عمل میں سست رفتار پیشرفت کے دوران طالبان قیدیوں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور ساتھ ہی جنگ بندی کے نام پر ان کے خلاف جاری جنگ کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اس طرح کے متضاد ارادوں اور مطالبات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کٹھ پتلی حکام دراصل امن و آشتی کے دشمن ہیں لیکن ان کی جانب سے جنگ بندی کی فرمائش صرف اس لئے کی جاتی ہے تاکہ وہ طالبان کے حملوں سے محفوظ ہوکر بڑے سکون سے بدعنوانی ، لوٹ مار اور اخلاقی کرپشن کرتے رہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ امارت اسلامیہ نے کبھی بھی امریکیوں اور ان کے کٹھ پتلیوں کے ساتھ جنگ بندی کو مسترد نہیں کیا ہے لیکن اس کے بدلے میں دشمن کو بھی کچھ اقدامات کرنے ہوں گے، مجاہدین نے جس مقصد کے لئے جنگ شروع کی ہے، وہ اس کی ضمانت تو کم از کم حاصل کریں۔
امریکیوں کے ساتھ بھی مذاکرات میں یہی معاملہ چلتا رہا، جس میں قبل از وقت جنگ بندی کا مطالبہ غیر معقول تھا لیکن جب وہ جارحیت ختم کرنے پر راضی ہوگئے تو ان کے ساتھ خود بخود جنگ بندی ہوگئی کیونکہ جنگ کی وجہ ختم ہوگئی۔
اب جب کابل حکومت نے اپنے مذاکرات کاروں کو امارت کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کے لئے بھیجا ہے، اور دوسری طرف اسی حکومت کے متعدد نا اہل ، خود غرض اور تعصب پرست حکام نے امن عمل کو سبوتاژ کرنے کے لئے منہ کھول دیا ہے، صبح و شام نامناسب خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔
ایک کہتا ہے کہ طالبان قیدیوں کو پھانسی دی جانی چاہئے ، دوسرا کہتا ہے کہ اگر طالبان ہمارے مطالبات کو قبول نہیں کرتے ہیں تو ہم ان سے زبردستی منوائیں گے، کوئی کہتا ہے کہ اگلے مراحل میں ہم قیدیوں کو رہا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ کابل اور دیگر صوبوں میں جن صحافیوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اس میں طالبان ملوث ہیں۔
امریکہ اور عالمی برادری نے دوحہ معاہدے میں قیدیوں کو رہا کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن کابل حکام انہیں پھانسی دینے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ حالانکہ وہ امارت اسلامیہ سے غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
کیا دوحہ معاہدے کی قانونی حیثیت ہے یا کابل کے تعصب پرست حکام کے دن رات منفی خیالات کی حیثیت ہے؟
حکومت کی خفیہ ایجنسیوں نے عام شہریوں ، سول سوسائٹی کے کارکنوں اور صحافیوں کے پراسرار قتل کا سلسلہ بھی اس لئے شروع کیا ہے تاکہ وہ مجاہدین پر دباؤ ڈالنے کے لئے استعمال کیا جائے۔
حالانکہ مجاہدین کبھی بھی عام شہریوں کو نشانہ نہیں بناتے، ان میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے اور نہ ہی یہ شریعت اور انسانیت کی رو سے جائز ہے۔
کابل حکومت کے ذمہ دار اور سنجیدہ افراد اگر وہ مذاکرات کے عمل کو کامیاب بنانا چاہتے ہیں، ملک میں امن ، سلامتی اور آزاد اسلامی حکومت قائم ہوسکیں، اور اس کے نتیجے میں دیرپا امن قائم اور جنگ ہمیشہ کے لئے ختم ہو سکے اور بین الاقوامی اعتماد کو حاصل کیا جاسکے تو ضروری ہے کہ ان چند تعصب پرست عناصر کو اس نازک وقت پر اس طرح کے غیر سنجیدہ اور نامناسب بیانات دینے سے روکا جائے۔
بصورت دیگر امارت اسلامیہ اپنے ملک کی آزادی اور اسلامی نظام کے نفاذ کے خلاف کسی کی گفتگو اور ہوائی فائرنگ سے خوف زدہ نہیں ہوگی، اللہ تعالی کے فضل و کرم سے جس طرح میدان جنگ میں قربانیوں کا کامیاب ریکارڈ قائم کیا ہے، امن کی راہ میں بھی ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہے لیکن فریق مخالف کو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔