حالیہ جہادی کا روائیوں کی انفرادی خصوصیات

شاہد غزنیوال   جب امریکا نے 2014ء میں افغانستان میں اپنے فوجی مشن کے اختتام کا اعلان کیا اور ایک بڑے فوجی پروگرام میں امریکی پرچم کو اتار کر لپیٹا گیا تو اس کے ساتھ ہی کابل حکومت کے فنا کے خطرات بھی بڑھ گئے۔ افغانستان میں غیر ملکی جارحیت پسندوں کے فوجی مشن کے […]

شاہد غزنیوال

 

جب امریکا نے 2014ء میں افغانستان میں اپنے فوجی مشن کے اختتام کا اعلان کیا اور ایک بڑے فوجی پروگرام میں امریکی پرچم کو اتار کر لپیٹا گیا تو اس کے ساتھ ہی کابل حکومت کے فنا کے خطرات بھی بڑھ گئے۔ افغانستان میں غیر ملکی جارحیت پسندوں کے فوجی مشن کے اختتام سے کٹھ پتلی حکومت کے حوصلے پست ہوگئے۔ افغان کٹھ پتلیوں کا کردار میں کرائے کے قاتلوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ غیر ملکی فوجیوں کی حفاظت کے علاوہ ان کا کوئی مشن   اور نظریہ نہیں ہے۔ ان   میں ملک کی خاطر جان دینے کا حوصلہ بالکل نہیں ہے۔ یہی وجہ تھی رواں سال مجاہدین کی کارروائیاں ماضی کی نسبت تیز تر رہیں۔ بدخشان سے نورستان تک،ہلمند سے کنڑ تک، فاریاب سے ننگرہار تک اور کابل سے قندوز تک دشمن کے تمام فوجی مراکز طالبان کے شدید حملوں کی زد میں رہے۔ رواں سال کی جہادی کارروائیوں کو گزشتہ سالوں کی کارروائیوں سے ممتاز کرنے والی نمایاں تبدیلیاں درج ذیل ہیں:

1۔ رواں سال مجاہدین کی کا رروائیوں نے اقدامی صورت اختیار کرلی ہے۔ قندوز   کی فتح سے لے کر بدخشان، تخار، بغلان، سرِپُل، فاریاب، غور،بادغیس، فراہ، ہلمند اور غزنی سمیت مختلف علاقوں میں ہر حملہ پہلے طالبان نے کیا اور کٹھ پتلی حکومت کو مقابلے کے لیے دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑی۔

2۔ مجاہدین نے گوریلا جنگوں کے بجائے شہروں کے اندر لڑائی پر بھر پور توجہ دی، جس میں   خاطر خواہ کامیا بی ملی۔ مثال کے طور پر شہری لڑائی کے نتیجے میں مجاہدین نے قندوز فتح کیا اور پورے دو ہفتے ان کے قبضےمیں رہا۔ قندوز شہر پر اقدامی حملہ مجاہدین کا شہر کے اندر لڑنے کا پہلا تجربہ تھا، لیکن مجاہدین نے یہ مرحلہ کامیابی سے انجام تک پہنچایا۔جس کے بعد دشمن نے بھی ان کی فوجی حکمتِ عملی کی تعریف کی۔

3۔مجاہدین نے   شہری لڑائی کے ساتھ دشمن کےخلاف بڑے بڑے گروپ بنائے۔ ہر گروپ 400 سے 800 مجاہدین پر مشتمل تھا۔ جن میں ضلعی اور صوبائی سطح پر ہر گروپ کے دو سے پانچ مجاہدین شریک تھے۔ گروپ بنانے کی تکنیک نہایت کامیاب رہی اور فاریاب، سرپل، ہلمند، تخار اور بغلان میں ان گروپوں کے مجاہدین نے حملے کرکے   دشمن کو بیش بہا جانی اور مالی نقصانات پہنچائے۔

4۔ مجاہدین کی شہری لڑائیوں، گروپ کارروائیوں اور دوسرے اقدامی حملوں   کا ہدف صرف دشمن کے فوجی مراکز تھے ۔ شہریوں کی جان و مال   کا سب سے زیادہ   خیال رکھا گیا۔

5۔ کارروائیوں کی ایک اَور خاص بات ان کا ملک گیر ہونا تھا۔ جس نے ایک ہی وقت میں ملک کے بیشتر علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دشمن کی فوجی قوت کا بھانڈا پھوڑ دیا۔

6۔ ان کارروائیوں نے غیر ملکی اور ملکی خونخواروں کے سامنے یہ بات ثابت کر دی کہ مجاہدین ملک میں جہاں بھی اور جس وقت بھی چاہیں، فوجی کارروائی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چاہے ان کا ہدف بڑے شہر کے اندر ہو یا صوبوں کے مراکز ہوں۔ عام شاہراہ ہو یا ضلعی مراکز ۔

7۔ مجاہدین کی کا میاب کارروائیوں نے غیر ملکی جارحیت پسندوں کے وہ تمام دعوے غلط ثابت کر دیے ہیں،جو وہ کٹھ پتلی افواج کی   صلاحیتوں اور اچھی ٹریننگ کے بارے میں کرتے ہیں کہ ان کے تربیت یافتہ فوجی   اب اکیلے ہی طالبان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

8۔رواں سال کی کامیاب کارروائیوں کے دوران مجاہدین نے   ملک کے طول وعرض میں کئی اہم علاقوں پر قبضہ کیا، جس میں دشمن سے ہزاروں کی تعداد میں ہلکے اور بھاری ہتھیار، بکتر بند گاڑیاں اور فوجی وسائل غنیمت میں ملے۔ اسلحے کے اس ذخیرے سے مجاہدین آئندہ کئی سالوں تک کفری باقیات کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھ سکیں گے۔