حمداللہ محب جس سیاست کو سیاست کہتے ہیں، وہ طالبان کے لئے غیر اہم ہے

آج کی بات کابل میں نام نہاد قومی سلامتی کے سربراہ حمداللہ محب نے پریس کانفرنس میں کہا کہ طالبان نے اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی ہے اور وہ سیاست کو نہیں سمجھتے ہیں۔ امارت اسلامیہ کے ترجمان جناب ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ٹویٹر پیج پر نہایت مناسب، واضح اور جامع انداز میں جواب […]

آج کی بات
کابل میں نام نہاد قومی سلامتی کے سربراہ حمداللہ محب نے پریس کانفرنس میں کہا کہ طالبان نے اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی ہے اور وہ سیاست کو نہیں سمجھتے ہیں۔
امارت اسلامیہ کے ترجمان جناب ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ٹویٹر پیج پر نہایت مناسب، واضح اور جامع انداز میں جواب دیا اور تمام افغانوں کی امنگوں کی ترجمانی کا حق ادا کیا جس کو وسیع پیمانے پر پذیرائی ملی۔
مجاہد صاحب نے محب کو جواب دیا: اگر سیاست دھوکہ دہی ، فراڈ ، غلامی اور چور دروازے سے اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کا نام ہے تو بلا شبہ طالبان ان چیزوں کے بارے میں نہیں جانتے اور اس کے برعکس کابل انتظامیہ کے غلاموں کو مہارت حاصل ہے۔
اور اگر سیاست شرعی مشن، نبوی طریقہ ، استقامت اور ہمت کا نام ہے تو پھر اس میدان میں طالبان سب سے آگے ہیں۔
میرے خیال میں کابل انتظامیہ کے اعلی حکام اور مبلغین شرمندہ ہوتے ہی نہیں ورنہ مجاہد صاحب کی تازہ ترین ٹویٹ ساری زندگی ان کے لئے کافی ہے۔
کیونکہ طالبان نے 2001 میں محب کے آقاوں کو بتا دیا تھا کہ امارت اسلامیہ مسائل کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کے لئے تیار ہے، جنگ ، تشدد اور غنڈہ گردی سے پچھتاوے کے علاوہ کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا، اور نہ ہی افغانستان میں اسلامی نظام اور افغان عوام کی امنگوں کے بغیر کوئی نظام قابل عمل ہے۔
لیکن حمداللہ محب کے آقا بش اور دیگر امریکی اور مغربی حکمران کہتے تھے: ہم افغانستان میں طاقت کے بل بوتے پر افغانستان میں جمہوریت کے لبادے میں ظالمانہ نظام اور افغان عوام پر ایسے افغان نما لوگ مسلط کریں گے جو ہمارے نائٹ کلبوں میں پلے ہیں۔
محب، مفکر اور دو دہائیوں سے قوم پر مسلط ٹولہ غور کریں کہ امریکہ اور نیٹو کی ڈیڑھ لاکھ افواج، کابل انتظامیہ کی چار لاکھ فورسز اور ڈیڑھ کھرب ڈالر نے افغانستان میں کیا انقلاب لایا ہے؟ اگر شکست، تباہی اور بربادی کے سوا کچھ لاتا تو امریکہ اپنی پوری طاقت اور تکبر کے ساتھ طالبان کی پختہ پالیسی اور منطقی طرز عمل پر ہاں نہیں کرتا اور نہ ہی تاریخی دوحہ معاہدہ کرتا۔
لہذا محب اور دیگر غلاموں کو چاہئے کہ وہ ضد ، تعصب ، بدنیتی اور خود غرضی کی عینک اتار کر مجاہد صاحب کی ٹویٹ کو غور سے پڑھیں اور اعلان کریں کہ طالبان واقعی اسلام اور افغانستان کا دفاع کررہے ہیں، اور ان کی سیاست خودغرضانہ مفادات سے بالاتر ہے۔