حکام کی وجہ سے شہریوں کی بری حالت

آج کی بات ایسے وقت میں کہ ایک جانب سے کابل انتظامیہ کے حکام دن رات مصروف عمل ہیں کہ غیر ملکی حملہ آوروں کی موجودگی کو برقرار رکھنے اور جارحیت کو دوام بخشنے کے لئے ہاتھ پاوں ماررہے ہیں، امن قائم کرنے اور جارحیت کے خاتمے کے لئے دوحہ میں جو معاہدہ ہوا تھا […]

آج کی بات

ایسے وقت میں کہ ایک جانب سے کابل انتظامیہ کے حکام دن رات مصروف عمل ہیں کہ غیر ملکی حملہ آوروں کی موجودگی کو برقرار رکھنے اور جارحیت کو دوام بخشنے کے لئے ہاتھ پاوں ماررہے ہیں، امن قائم کرنے اور جارحیت کے خاتمے کے لئے دوحہ میں جو معاہدہ ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں بین الافغان مذاکرات شروع ہونے کے لئے راہ ہموار ہوئی تھی، جس سے افغانستان کے طویل بحرانوں کے خاتمے کے لئے امیدیں پیدا ہوگئی تھیں، کابل حکام ان سب کو ختم اور اس عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ امریکی ڈالر کے حصول سے محروم نہ رہیں، اگرچہ یہ عوام کے خون کی قیمت پر کیوں نہ ہو۔
اگر حکام ایک طرف مذکورہ بالا معاملات میں مصروف عمل ہیں تو دوسری طرف ان حکام کے مظالم کی وجہ سے عوام رو رہے ہیں اور سراپا احتجاج ہیں اور وہ شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔
درج ذیل واقعات اس سنگین صورتحال کی گواہی دیتے ہیں:
کابل – ہرات قومی شاہراہ پر مال بردار گاڑیوں اور عام مسافروں کی گاڑیوں کی آمدورفت پر سخت پابندی عائد کردی گئی ہے کیونکہ ان گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو اس قومی شاہراہ پر کابل انتظامیہ کے کرپٹ حکام غیر قانونی طور پر ہراساں کرتے ہیں، ان سے بھتہ لیتے ہیں، اگر وہ بھتہ دینے سے انکار کریں تو ان پر تشدد کیا جاتا ہے، گرفتار اور ہراساں کیا جاتا ہے یہاں تک کہ انہیں مارا جاتا ہے، چند روز سے گاڑیوں کے مالکان اور ڈرائیور شاہراہوں پر احتجاج کر رہے ہیں، سوشل میڈیا پر ویڈیوز میں ان کی چیخیں سارے لوگ سنتے ہیں۔
کابل اور قندھار میں منی ایکسچینج کا کاروبار رک گیا ہے کیونکہ کابل حکام منی چینج کرنے والوں کے حقوق کو سلب کرنے کے علاوہ ان سے چوری کرتے ہیں، بھتہ اور رشوت لیتے ہیں، اس کے علاوہ سیکیورٹی کی صورتحال بھی اتنی سنگین ہوچکی ہے کہ اغوا برائے تاوان اب معمول کی بات ہے۔
گزشتہ روز ہلمند کے شہر سنگین میں امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے 6000 ڈالر کے عوض کابل سے اغوا کیے گئے ایک بچے کو بچایا اور اغوا کاروں کو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔
صوبہ ہرات میں اسلام قلعہ کے سرحدی کسٹم آفس میں کابل حکام کی عدم توجہی کی وجہ سے تیل ، گیس اور خام مال سے بھرے ہوئے 500 کنٹینر جل گئے، اور ایک اندازے کے مطابق 200 ملین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا جس کے باعث تاجر چیخ چیخ کہتے ہیں کہ یہ نقصان ہمیں ان کرپٹ حکام کی وجہ سے پہنچا ہے، ان کے مطابق حکام نے ہمیں کسٹم میں سہولیات فراہم کیں اور نہ ہی بروقت ہمارے مسائل حل کئے، وہ بروقت ہمارے مسائل اس لئے حل نہیں کرتے تھے تاکہ وہ لوگوں کو زیادہ رشوت دینے پر مجبور کر سکیں۔
قندھار میں ارغنداب ، پنجوائی اور دیگر جنگ زدہ علاقوں میں شہری سراپا احتجاج ہیں، شہر کے علماء، تاجروں اور کاریگروں نے ان کی حمایت کی ہے، وہ حکومتی فورسز کے مظالم سے تنگ آچکے ہیں، ارغندب کے لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی ملیشیا ان کو ڈھال کی طرح استعمال کرتے ہیں، چھاپوں اور فضائی حملوں میں شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں، باغات اور فصلوں کو تباہ کر دیا گیا، گھروں اور املاک کو لوٹا جاتا ہے، ان کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک روا رکھا جاتا ہے تاکہ وہ مجاہدین کے خلاف لڑنے پر مجبور کریں۔
دارالحکومت کابل میں عدم تحفظ ، ڈکیتیوں ، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور دیگر واقعات کی خبریں اب بین الاقوامی میڈیا کی سرخیاں بن گئیں۔
یہ سارے مسائل اور مصائب ایک ایسے وقت میں ہم وطنوں پر گزر کررہے ہیں کہ کٹھ پتلی حکومت کے نااہل حکام اس صورتحال سے اگاہی بھی حاصل نہیں کرتے ہیں، وہ صرف امن عمل کو سبوتاژ کرنے، قابض افواج کی موجودگی کو برقرار رکھنے، قومی خزانے اور بیت المال کو لوٹنے اور آپس میں ایک دوسرے کو پیٹنے میں مصروف ہیں۔