خواتین کے حقوق ، سیاسی مقاصد کے لئے

آج کی بات کابل انتظامیہ کے متعدد ذمہ دار اور غیر ذمہ دار حکام نے جنیوا کانفرنس سے خطاب کیا، مجموعی طور پر ان کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ عالمی برادری کابل کی نااہل حکومت کے لئے ڈالر اور اسلحہ فراہمی کا سللسہ نہ توڑے، ماضی کی طرح اس بار بھی افغان عوام کی […]

آج کی بات

کابل انتظامیہ کے متعدد ذمہ دار اور غیر ذمہ دار حکام نے جنیوا کانفرنس سے خطاب کیا، مجموعی طور پر ان کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ عالمی برادری کابل کی نااہل حکومت کے لئے ڈالر اور اسلحہ فراہمی کا سللسہ نہ توڑے، ماضی کی طرح اس بار بھی افغان عوام کی بجائے کرپٹ حکام کو امداد فراہم کی جائے اور امن عمل کو دنیا کی طرف سے اس طرح سپورٹ کرنا چاہئے جس طرح ایوان صدر کے حکام چاہتے ہیں۔
ان میں سے ایک امریکی نژاد لبنانی عیسائی رولا ہے، جو اشرف غنی کی اہلیہ کے بغیر اس کا کابل انتظامیہ میں کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے۔ انہوں نے جنیوا کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ “افغان خواتین ایسے امن کی حمایت نہیں کرتی ہیں جس میں خواتین کے حقوق اور 19 سالہ کامیابیوں کو تحفظ حاصل نہ ہو” انہوں نے مزید کہا کہ عالمی برادری کو نام نہاد حکومت کی سربراہی میں امن عمل کی حمایت کرنی چاہئے۔
کابل انتظامیہ کے اعلی حکام سیاسی تنہائی ، مالی بدعنوانی ، اخلاقی زوال ، قومی غداری اور انسانی حقوق کی پامالی کے اس مرحلے پر پہنچ چکے ہیں کہ اب وہ اپنی سیاسی بدعنوانی اور ذاتی مفادات کے حصول کے لئے کے لئے خواتین اور دیگر انسانی حقوق کے تحفظ کا نام استعمال کرتے ہیں۔
رولاغنی جس کا افغانوں سے کوئی روحانی یا نظریاتی تعلق نہیں ہے، اور نہ ہی اس کی مشترکہ جغرافیائی اور سیاسی وابستگی ہے، لیکن اس کے باوجود وہ عالمی برادری کے سامنے خود کو افغان خواتین کی وکیل کے طور پر پیش کرتی ہے جو غیر ذمہ دارانہ ایڈریس سے افغان خواتین کی نمائندگی سے امن کے خلاف سرخ لکیر کھینچتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اس وقت تک امن عمل قبول نہیں کروں گی جب تک طالبان خواتین کی آزادی اور 19 سال کی کامیابیوں کا تحفظ یقینی نہیں بناتے ہیں۔
وہ صرف بین الاقوامی توجہ مبذول کروانے کے لئے خواتین کے دفاع کا نعرہ لگاتے ہیں اور اس طرح وہ اپنی بقا کے لئے ان کے ڈالر ، فوجی اور سیاسی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
افغان عوام جانتے ہیں کہ ایوان صدر کے حکام نے خواتین کو کونسے حقوق دیئے ہیں؟ کیا جنسی استحصال کے بدلے حکومتی پوسٹوں پر انہیں  تعینات کرنا ان کے حقوق ہیں؟ کیا ان کے حقوق یہ ہیں کہ آدھی رات کو سیکورٹی فورسز کے اہل کار ان کے گھروں میں گھس جاتے ہیں اور ان کے سامنے ان کے بچوں ، شوہروں اور بھائیوں کو مار ڈالتے ہیں؟ کیا ان کے حقوق یہ ہیں کہ القاعدہ اور طالبان کے نام پر بے گناہ خواتین کو حراست میں لیا جاتا ہے؟ یا ان کے حقوق یہ ہیں کہ سیگار رپورٹ کے مطابق کابل حکام نے ہلاک ہونے والے فوجیوں کی عورتوں کو تنخواہوں کے عوض ان کی عزت کو نیلام کر دیا لیکن کابل انتظامیہ ہر چیز کو بے بنیاد سمجھتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی تاریخ میں خواتین کے حقوق کی کبھی اتنی تضحیک نہیں ہوئی ہے جتنی تضحیک کابل کی کٹھ پتلی حکومت کی اس 20 سالہ دور حکومت میں ہوئی ہے۔
خواتین کی حقیقی حیثیت ، وقار ، تعلیم ، کام اور دیگر تمام حقوق صرف اسلام اور اسلامی قانون کے مکمل نفاذ کے ذریعے محفوظ ہوسکتے ہیں۔ امارت اسلامیہ بہرحال اس کے لئے پرعزم ہے اور یہ افغان خواتین پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ ایک الہی حکم کی تکمیل ہے جسے امارت اسلامیہ ضروری سمجھتی ہے۔
افغان خواتین ، عوام اور دنیا کو محتاط رہنا چاہئے کہ کابل انتظامیہ کے کرپٹ ، بدعنوان ، اور سیاسی شعبدہ باز حکام کی نمائش باتوں سے متاثر نہ ہو، جو سب کچھ اپنے سیاسی مقاصد اور سیاسی بدعنوانی کے لئے کررہے ہیں۔