شہداء کی مسکراہٹیں مقدس جہاد کی حقانیت کا نمونہ !

کابل کٹھ پتلی انتظامیہ نے اتوار کے روز 08/ مئی 2016ء  افغان مجاہد عوام کے 6 سپوت اور سرفروش فرزندوں کو نہایت وحشت اور تمام اقدار کے خلاف شہید کردیے۔ مظلوم شہداء سیاسی قیدی تھے اور انہیں سیاسی بنیاد پر ہی شہید کردیے گئے۔ سیاسی قیدیوں کا قتل درحقیقت تمام اقدار کے خلاف عظیم جرم […]

کابل کٹھ پتلی انتظامیہ نے اتوار کے روز 08/ مئی 2016ء  افغان مجاہد عوام کے 6 سپوت اور سرفروش فرزندوں کو نہایت وحشت اور تمام اقدار کے خلاف شہید کردیے۔

مظلوم شہداء سیاسی قیدی تھے اور انہیں سیاسی بنیاد پر ہی شہید کردیے گئے۔ سیاسی قیدیوں کا قتل درحقیقت تمام اقدار کے خلاف عظیم جرم اور بزدلانہ عمل ہے۔

قیدیوں کو سیاسی بنیاد پر شہید کرنے کے لیے یہی کافی ہے کہ آج سے کئی برس پہلے گرفتار ہوئے تھے  اور بعد میں کرپٹ انتظامیہ کے نام نہاد تینوں عدالتوں  کے حکم سے  پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن اس پر عمل درآمد آج ہورہا ہے! اور وہ بھی ایک جاسوسی مرکز کی تباہی کے بدلے!کہتے ہیں کہ” ترس درکجا و زدن در کجا” قیدی کس جرم کے بنیاد پر گرفتار ہوئے تھے اور کس واقعہ کے  بدلے میں شہید کیے گئے ؟!

جب اجنبی اور کرپشن میں سر سے پاؤں تک ڈوبی ہوئی غیرقانونی انتظامیہ کو اپنا اختیار نہیں ہے، استعمار کے سفارتخانے کی پیدوار ہو اور استعمار ہی اسے فنڈ فراہم کررہا ہو۔ ایسے حالت میں  کس طرح ممکن ہے کہ کسی کے قسمت کے بارے میں اس کے پاس  فیصلہ کرنے کا قانونی حیثیت  ہو۔

دشمن کو سمجھنا چاہیے کہ شہادت مجاہدین کی عظیم آرزو ہے۔شہید کیے جانے والے قیدیوں کی  مسکراہٹ بھرے چہروں  نے مجاہدین کو اپنے مؤقف کی حقانیت پر مزید یقینی کیے۔ ان میں نئی روح پھونک دی اور ان کے حوصلے کو بلند کردی۔ شہداء کے خون  ضرور رنگ لائیگا۔ دشمن کو کمیونزم کے اعمال اور قسمت سے عبرت لینا چاہیے!

ہم انسانی حقوق اور خاص طور پر قیدیوں سے متعلقہ اداروں کو بتاتے ہیں کہ  قیدیوں کے حقوق کی تحفظ کے لیے اپنے انسانی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھائے۔ قیدیوں کے حق میں جرائم پیشہ افراد کے جرائم کا سدباب ہونا چاہیے۔ ایسے جرائم اگر ایک جانب  قیدیوں کے حق پر برملا تجاوز اور ظلم ہے ، تو دوسری طرف سیاسی حالت پر گہرے اور برے اثرات  مرتب کرتے ہیں۔