شہری نقصانات کا سدباب رواں جہاد کے اہم اہداف میں سے ہیں

25/ جولائی 2016ء کو افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی ذیلی ادارے یوناما نے سویلین نقصانات سے متعلق  ششماہی رپورٹ شائع کی۔ اس رپورٹ میں معمول کے مطابق سویلین نقصانات کی زیادہ فیصدی  امارت اسلامیہ کو منسوب کی  گئی ہے۔افسوس جنوری 2009ء سے افغانستان میں اقوام متحدہ کے دفتر نے شہری نقصانات رجسٹرڈ کروانے کا […]

25/ جولائی 2016ء کو افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی ذیلی ادارے یوناما نے سویلین نقصانات سے متعلق  ششماہی رپورٹ شائع کی۔ اس رپورٹ میں معمول کے مطابق سویلین نقصانات کی زیادہ فیصدی  امارت اسلامیہ کو منسوب کی  گئی ہے۔افسوس جنوری 2009ء سے افغانستان میں اقوام متحدہ کے دفتر نے شہری نقصانات رجسٹرڈ کروانے کا آغاز کیا ہے۔ ہر بار استعماری ممالک اور کابل انتظامیہ کی سیکورٹی فورسز کی جانب سے رونما ہونے والے شہری نقصانات کی تعداد نہ ہونے کے برابر بتاتے ہیں۔ اسی وجہ سے امارت اسلامیہ نے ہمیشہ ان کی رپورٹوں پر تنقید کی ہے۔

امارت اسلامیہ کے اراکین عوام سے پھوٹ پڑے ہیں اور عوام ہی میں مسکن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امارت اسلامیہ کی قیادت نے اپنی عوامی پالیسی کی رو سے ہمیشہ سویلین نقصانات کے روک  تھام پر توجہ دی ہے۔ سیاسی دفتر اور سویلین نقصانات کے سدباب کے ادارے کے ذریعے شہری نقصانات کے روک تھام کے حصے میں اقوام متحدہ  کے انسانی حقوق کے شعبے سے تعاون کا  اظہار کیا ہے۔ مختلف مواقع پر اپنے گورنروں اور کمانڈروں کو شہری نقصانات کے روک تھام کی ہدایات جاری کی ہے۔ مجاہدین کے عملی تربیت کے لیے وقتافوقتا سمیناروں کا انعقاد کیا ہے۔ فوجی کمیشن کی نگرانی میں سویلین نقصانات کے روک تھام کی شاخ قائم کی ہے اور اس کےلیے مخصوص لائحہ مرتب کیا گیا ہے،جس کے شق نمبر9  میں یوں تحریر ہے کہ”شہری نقصانات کسی طور پر امارت اسلامیہ کے لیے قابل قبول نہیں ہے” اس کے علاوہ امارت اسلامیہ کے جناب زعیم نے عید کے پیغامات میں ہمیشہ عوام کیساتھ حسن سلوک اور شہری نقصانات کے سدباب پر اصرار کیا ہے۔ اسی طرح امارت اسلامیہ کے وفد نے تمام عالمی کانفرنسوں میں مثلا جاپان کے ٹوکیو، فرانس کے چانٹیلی، ناروے کے اوسلو فورم اور دوحہ کی کانفرنسوں میں شہری نقصانات کے روک تھام کو رواں جہاد کے اہم اہداف تصور کیے  ہیں۔ان تمام سے شہری نقصانات کے سدباب کے متعلق امارت اسلامیہ کے عزم اور پالیسی ظاہر ہوتی ہے۔

قابل یادآوری ہے کہ افغانستان میں شہری نقصانات ہلکے ہتھیاروں کے استعمال کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ بھاری ہتھیاروں، اندھے بمباریوں اور ڈرون حملوں نتیجے میں سامنے آتے ہیں، جو تمام تر کابل انتظامیہ اور جارح افواج کے اختیارات میں ہیں اور ان ہی کی جانب سے انجام ہوتے ہیں۔جس کے واضح مثال صوبہ بغلان کے ڈنڈغوری اور ڈنڈ شہاب الدین کے علاقے ہیں، جہاں کابل انتطامیہ کی بھاری ہتھیاروں کے بےدریغ استعمال سے وسیع پیمانے پر مقامی لوگوں کے مکانات منہدم، بچے، خواتین اور بوڑھے شہید اور ہزاروں گھرانے گھربار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

امارت اسلامیہ کے مجاہدین  لائحہ کی رو سے شہریوں کے ہجوم  کی جگہ میں دھماکے نہیں کرواتے اور کنٹرول ہونے والے بموں   کا استعمال نہیں کرتے۔ اسی طرح وہ بارودی سرنگیں جو روس کے خلاف جہاد کے زمانے سے پڑے ہوئے ہیں ، جو کھبی کبھار شہریوں کے نقصانات کے سبب بنتے ہیں، وہ امارت اسلامیہ کو منسوب  ہوسکتے اور نہ ہی وہ بارود اور بم جو صرف حکومت کے پاس ہوتے ہیں اور شہریوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، امارت اسلامیہ سے اس کا کوئی تعلق ہے، اس نوعیت کے واقعات کے بُرے مقاصد ہوتے ہیں،جس سے امارت برائت اعلان کرتی ہے۔

جس طرح اقوام متحدہ خود کو عالمی اور غیرجانبدار ادارہ سمجھتی ہے، تو اس کی رپورٹیں بھی حقائق پر منبی ہونے چاہیے۔ پروپیگنڈے کا حصہ نہ بنے۔ یہ ان کےلیے لازمی ہے تاکہ حکومتوں کے بجائے اقوام پر اعتماد کریں۔ البتہ اگر اقوام متحدہ کے شہری نقصانات کے شعبہ  کے پاس عوام کی تحفظ کے مشترکہ مقصد سے متعلق کوئی سوال ہو، تو اسے امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کے سامنے رکھ دیں۔ امارت اسلامیہ  ہمیشہ شہری نقصانات کے روک تھام سے متعلق ہر مثبت تجویز کا خیرمقدم کرتی ہے۔