شہری ہلاکتوں کا اصل ذمہ دار؟

آج کی بات شہری ہلاکتوں کے سلسلے میں یہ انوکھی مثال ہے کہ کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی نے سانحہ نمروز کی ذمہ داری قبول کی، اگرچہ وزارت دفاع نے ابھی تک اس بیان سے انحراف نہیں کیا ہے جو اس واقعے کی صبح ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ نیمروز میں طالبان […]

آج کی بات

شہری ہلاکتوں کے سلسلے میں یہ انوکھی مثال ہے کہ کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی نے سانحہ نمروز کی ذمہ داری قبول کی، اگرچہ وزارت دفاع نے ابھی تک اس بیان سے انحراف نہیں کیا ہے جو اس واقعے کی صبح ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ نیمروز میں طالبان کے ایک فوجی اڈے کو نشانہ بنایا گیا جس میں نو پاکستانی جرنیلوں اور پانچ طالبان کمانڈروں کو مارا گیا جب کہ چھ دیگر زخمی ہوئے۔
اشرف غنی نے اس کے بعد اس جرم کا اعتراف کیا کہ کابل میں فرانسیسی سفارت خانے اور یورپی یونین کے نمائندوں نے سانحہ نیمروز کی مذمت کی اور اس کی شفاف تحقیقات اور ملوث عناصر کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
اگر ان کا ردعمل سامنے نہ آتا تو اشرف غنی اور دیگر حکام کبھی بھی اس کا اعتراف نہیں کرتے، نیز کابل میں نام نہاد انسانی حقوق کمیشن نے بھی مذکورہ سفارت خانوں کی وضاحت کے بعد بیان جاری کیا اور سانحہ نیمروز میں خواتین اور بچوں سمیت تمام متاثرین کو عام شہری قرار دیا۔
یہ واقعہ پیر کی رات اس وقت پیش آیا جب کابل حکومت نے صوبہ نیمروز کے ضلع خاشرود کے علاقے منزری پر ظالمانہ بمباری کی جس میں خواتین اور بچوں سمیت ایک خاندان کے 18 افراد شہید اور دو زخمی ہوگئے۔
اس المناک واقعہ کے بعد نیمروز کے گورنر اور کابل انتظامیہ کے ترجمانوں اور دیگر حکام نے شہداء کو دہشت گرد اور طالبان قرار دیا، اگرچہ مقامی لوگوں نے شہید بچوں اور خواتین کی لاشوں کو صوبائی دارالحکومت لایا اور انہیں حکام کے سامنے رکھا لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ جاں بحق ہونے والے تمام دہشت گرد، طالبان اور پاکستانی ہیں۔
اسی طرح کا واقعہ تین ہفتہ قبل قندھار کے ارغنداب میں پیش آیا تھا، جب کٹھ پتلی حکومت کے طیاروں نے شہریوں کے گھروں پر بمباری کی جس سے ایک خاندان کے 11 افراد موقع پر ہی شہید ہوگئے تھے۔ لیکن حکام نے کوئی درد محسوس کیا اور نہ ذمہ داری قبول کی۔
نیز 22 اکتوبر کو صوبہ تخار کے صدر مقام تالقان کے ہزارہ قرلق کے علاقے میں کابل فضائیہ نے ایک مسجد پر بمباری کی، جس سے مسجد میں پڑھنے والے 17 معصوم بچے شہید ہوگئے تھے۔ اس وقت بھی کابل حکام نے دعوی کیا تھا کہ انہوں نے طالبان کا ایک عسکری مرکز کو نشانہ بنایا ہے۔ گورنر کے ترجمان نے لاعلمی میں حقائق بتائے اور اعتراف کیا کہ اس واقعہ میں بچے شہید ہوئے تو اعلی حکام نے اسے گرفتار کر کے برطرف کردیا تھا۔ امرولا صالی نے دیگر ذرائع ابلاغ کو بھی خبردار کیا کہ وہ اس قتل عام کی خبر شائع نہ کریں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کابل حکام برملا اعلان کرتے ہیں کہ ان کا کام واشنگٹن اور نیویارک کی حفاظت کرنی ہے۔ وہ فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ امریکیوں کی حفاظت کے لئے انہوں نے اپنے 40 ہزار فوجیوں اور ہزاروں شہریوں کی قربانی دی ہے۔
انہوں نے عملی طور پر بھی یہ ثابت کر دیا ہے کہ عوام کا قتل عام ان کے لئے ایک چیونٹی کی حیثیت بھی نہیں رکھتا ہے، لیکن اگر ان کے آقاوں نے کسی واقعے پر اظہار ہمدردی کیا تو پھر اشرف غنی، فوجی اور سویلین حکام سے لیکر میڈیا، پارلیمنٹ اور ہیومن رائٹس کمیشن تک سب مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ یہ جرم انہوں نے کیا ہے۔
اس سے واضح ہوا کہ اگر افغانستان میں کابل حکام جو بھی مجرمانہ حرکت کا ارتکاب کرتے ہیں اس میں ان کے غیر ملکی آقاؤں کا بھی عمل دخل ہوتا ہے، کیونکہ وہ ان کی آشیرباد سے ان جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، اگر وہ اس کی روک تھام کے لئے کہیں گے تو پھر کابل حکام اس طرح کھل کر گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرنے کی ہمت نہیں کریں گے۔
لہذا جتنا کابل حکومت افغان عوام کے قتل عام میں براہ راست ملوث ہے، اسی طرح اس کے غیر ملکی آقاؤں کو بھی اپنے کٹھ پتلیوں پر قابو نہ رکھنے اور لاپرواہی کی وجہ سے ان جرائم میں ملوث سمجھا جاتا ہے، شہری ہلاکتوں کے اصل مجرم وہ طاقتور بین الاقوامی طاقتیں ہیں جو کابل حکومت کی حمایت کرتی ہیں لیکن اس کو کنٹرول نہیں کرتی ہیں، اشرف غنی کی جانب سے سانحہ نیمروز کی ذمہ داری قبول کرنے سے واضح ہوا کہ فرانس اور یورپی یونین کے سفیروں کی مذمت کے بعد انہوں نے اعتراف جرم کیا۔