شہید منصور صاحب کے ساتھ ایک ملاقات کی رُوداد

قاری  حبیب   ۲۴ صفرالمظفر ۱۴۳۶ھ کو امیر المؤمنین ملا محمد عمر  مجاہد رحمہ اللہ  کی وفات کے اعلان سے قبل شہید منصور  صاحب  تقبلہ  اللہ  غیراعلانیہ  طورپر امارت کے  فرائض  انجام دے  رہے تھے۔ ان کی خواہش   تھی کہ  امارت اسلامی  کے   شعبہ اطلاعات کے  مسئولین، اہل قلم، رپورٹرز اور  اس  شعبے  میں کام […]

قاری  حبیب

 

۲۴ صفرالمظفر ۱۴۳۶ھ کو امیر المؤمنین ملا محمد عمر  مجاہد رحمہ اللہ  کی وفات کے اعلان سے قبل شہید منصور  صاحب  تقبلہ  اللہ  غیراعلانیہ  طورپر امارت کے  فرائض  انجام دے  رہے تھے۔ ان کی خواہش   تھی کہ  امارت اسلامی  کے   شعبہ اطلاعات کے  مسئولین، اہل قلم، رپورٹرز اور  اس  شعبے  میں کام کرنے والے  مجاہدین کو  قریب سے  دیکھیں ، تاکہ  ان کی  حوصلہ  افزائی کی جا سکے۔ انہیں جو مسائل درپیش ہیں،  ان  پر  بات ہو سکے اور سب سے  بڑھ  انہیں ملاقات کا شرف بخشا جائے ۔ دوپہر سے  کچھ قبل  منصور صاحب   اطلاعاتی کمیشن کے  ساتھیوں کی  مجلس میں  تشریف لائے۔ مجاہدین ان کے  احترام کے لیے کھڑے   ہوگئے۔ آپ نے  ہر ساتھی کے ساتھ  بغل گیر ہو کر مصافحہ  کیا۔ مصافحے  کے  بعد اطلاعاتی کمیشن کے سربراہ محترم  متقی صاحب نے مجلس کا آغاز کیا، ہر ساتھی  کا منصور صاحب سے تعارف کرایا اور پھر مختصر   افتتاحی  گفتگو کی۔ ساتھیوں کی  درخواست پر امیرالمؤمنین ملا اختر محمد  منصور  صاحب نے  گفتگو کا آغاز کیا۔ اس  گفتگو کے کچھ  اہم  نکات مَیں  نے کاغذ پر لکھے، جن   میں سے  کچھ حصہ آپ سے شیئر کر رہا ہوں۔

جناب  منصور صاحب نے  سب سے پہلے شعبہ اطلاعات کے  مجاہدین اور  اہل ِ قلم کا شکریہ ادا کیا  اور اطلاعاتی کمیشن کے کارناموں  کو  سراہا۔ انہوں نے  کہا؛الحمدللہ  ! میڈیا کے  میدان میں  ہماری  کارروائیاں عسکری کارروائیوں کے ساتھ جاری ہیں۔یہ  آپ کے اخلاص اور مشقتوں کی  برکت ہے کہ  یہ  شعبہ  بہت  منظم  طریقے سے  خدمات انجام  دے   رہا ہے۔امارت    کے مسئولین تمام ساتھیوں  کے مخلصانہ  کام  کو قدر کی  نگاہ سے  دیکھتے ہیں اور اللہ  تعالیٰ  سے  آپ سب کے لیے اجر و ثواب کے  طلب گار ہیں۔   پوری  دنیا جانتی ہے کہ  امارت اسلامی  کا شعبہ  اطلاعات بہت وسیع اور  تیز ہے۔  آپ  میں سے ہر کوئی  اپنے انفرادی کام میں امارت اسلامی کا  نمائندہ ہے اورآپ کو  چاہیے کہ   اس عہدے  پر اچھے  طریقے سے کام کریں۔ للہ الحمد! اطلاعاتی  کمیشن کے  مسئولین قابل اور     تجربہ کار افراد  ہیں، جن پر ہمیں مکمل  اعتماد ہے۔ اطلاعاتی کمیشن کے  مسئولین کی  اہلیت کی وجہ سے  ہم  اس شعبے  سے مکمل  طور پر  مطمئن ہیں۔ اسی  وجہ سے  ہم   آپ   لوگوں سے کم ہی  ملتے ہیں۔

جناب منصور صاحب  نے  مزید کہا: ہمیں چاہیے کہ  شعبہ  اطلاعات کے  نشریاتی   کاموں  میں    نہایت احتیاط سے کا م لیں۔ اپنی  رسمی  پالیسی کو  ہمیشہ مدِنظر رکھیں۔ کیوں کہ   اس دور میں حالات  بہت  تیزی سے  بدل    رہے ہیں اور  ہمیں  حالات  کے  مطابق اپنے  نشریاتی  کاموں  کو ڈھالنا ہوگا۔

انہوں نے بعد ازاں کئی  موضوعات پر جیسا  کہ  رواں جہا، القاعدہ  کے ساتھ  امارت  اسلامی کی  رابطہ پالیسی،خواتین کے  حقوق، تعلیم اور امن کے  حوالے سے مذاکرات پر امارت اسلامی کی   رسمی  پالیسی  واضح کی۔آپ نے دنیا کے ساتھ  تعلقات  کے بارے میں کہا:

بین الاقوامی  حکومتیں  اس لیے ہمارے ساتھ دشمنی  مول لیے ہوئے ہیں  کہ  ہماری دینی اساسات و احکامات  دنیا کی دیگر اقوام کے خودساختہ  احکامات سے بہت زیادہ منفرد ہیں۔ موجودہ  دنیا دین سے   دور ہوگئی ہے اور  شریعت کے لیے کوئی عملی  اقدامات نہیں کر رہی۔جبکہ  ہم شریعت کو  سب سے اہم سمجھتے ہیں۔ اور اسی  لیے ہم  نے جہاد کی  راہ  اپنائی ہے۔ دنیا یہ  چاہتی ہے کہ   ہم  بعض   احکامات کو چھوڑ دیں   تو مخالف سمت سے  ہمارے   لیے  نرمی  اختیار کی  جائے گی اور ہمارے  خلاف قوانین میں  ترمیم کریں  گے۔  وہ شاید ایسا کریں، کیوں کہ  ان کے   احکامات اور اساسات خودساختہ ہیں اور خود ہی  اسے مسخ بھی کر سکتےہیں، لیکن   ہمارے تمام احکامات  آسمانی ہیں۔ ہمارے پاس کوئی  ایسا  حکم  نہیں، جس  سے ہم  کفار کے سامنے   دستبردار ہو جائیں۔ مثلاً وہ کہتے ہیں: آپ لوگ حجاب   کے بارے   میں بہت سختی کرتے ہیں، اس سے دستبردار ہو جائیں۔ کیا ہم اس پر سمجھوتہ کر سکتے ہیں؟  جواب واضح ہے کہ  نہیں! کیوں کہ یہ  ہمارے  دین  کے  بنیادی  احکامات میں  سے ہے۔ یہ  اللہ کی  طرف سے  مقرر کردہ  ہے،  جس میں  ہمارا کوئی  اختیار  نہیں ہے۔ دنیا کہتی ہے امارت کا مؤقف  بہت سخت  ہے۔ مَیں کہتاہوں امارت  کا مؤقف سخت نہیں، ہم  نے  صرف اللہ کے  دین  کی  رسی  کو مضبوطی  سے  تھام لیا ہے، چوں کہ  دنیا  دین سے  بے گانہ  ہے۔ اس لیے  انہیں ہمارا مؤقف سخت دکھائی دیتا ہے۔

فتنوں کے اس دور میں اللہ کے  دین پر مر مٹنے کے  باعث  ہی  ہم  دنیا میں  تنہا ہوگئے ہیں، لیکن اللہ  کے ہاں  ہم  اکیلے  نہیں ہیں۔ کیوں کہ  اللہ  ہمارے ساتھ ہے۔ اگر  دنیا ہمارا ساتھ   نہیں  دیتی  تو اسے چھوڑ دو۔ کیونکہ   ہم  اللہ  تعالیٰ پر  توکل  کرتے  ہیں۔کچھ لوگ کہتے ہیں  آپ کے پاس  اتنی  افرادی قوت  نہیں  کہ  آپ پورے افغانستان   کو  فتح کر سکیں۔ میرا  جواب  یہ  ہے  کہ  ہم  وطن  کی فتح  یا اس  پر قبضے کے  مکلف  نہیں ہیں، ہم  اپنے    عقیدے  کی حفاظت کے مکلف ہیں۔ ہمیں اللہ  تعالیٰ کی  جانب   سے  جہاد   کا حکم  ہے  اور وہ ہم کر رہے  ہیں۔ افغانستان میں  رواں جنگ ہماری  ضرورت ہے،  کوئی شخص  لطف  اندوز ہونے کے لیے جنگ   نہیں کرتا، امن  ہر شخص کو پسند ہے۔ لیکن ہمارے   خطے پر  کفار کا  قبضہ ہے۔ ہمارا علاقہ جارحیت کا شکار ہے اور یہاں سے اسلامی  نظام کا خاتمہ کیا گیا ہے۔ وہ ہمارے ساتھ  عقیدے کی  جنگ لڑ رہے ہیں  اور ہماری آنے والی  نسلوں کو   گمراہ  کر رہے ہیں۔ اس لیے اس قسم کی کفریہ  کارروائیوں کے خلاف ہم  پر جہاد فرض  عین ہے۔

جناب  منصور صاحب کی  گفتگو  بہت دلچسپ تھی، جس میں  انہوں نے  بہت سے  انکشافات بھی کیے۔ آپ  بڑی  دل جمعی سے  ہر موضوع پر امارت   کا مؤقف واضح کرتے۔ آپ کی  گفتگو  کے  بعد اطلاعاتی  کمیشن کے  نائب مسئول   مرحوم  سید محمد حقانی صاحب  اور امارت  کے  ترجمان محترم ذبیح اللہ  مجاہد نے  گفتگو کی۔ اس کے  بعد مجلس کے ہر ساتھی کو  بات کرنے کی  مہلت  دی  گئی کہ  وہ امارت اسلامی کی  پالیسی کے  بارے میں کوئی  مشورہ  دینا چاہیں یا  کسی  موضوع پر امارت کی  پالیسی پر اعتراض کرنا  چاہیں  تو آزاد  فضا میں    اپنا مؤقف  بیان کر سکتے ہیں۔

اس  مجلس کے دوران  منصور صاحب  کے ہاتھ   میں  قلم  اور کاغذ موجود تھا، وہ جس پر ہر ساتھی   کی گفتگو کے  اہم  نکات   لکھتے  جاتے تھے۔ اگر اسے جواب یا وضاحت کی ضرورت ہوتی  تو  بڑے  میٹھے انداز میں جواب  دیتے۔اس مجلس کا یہ  لمحہ  اس لیے  بہت دلچسپ تھا کہ اس میں ہر ساتھی   کو بات  کرنے   کی  مکمل  آزادی  تھی۔ یہی  ’عمری خلافت‘ کی ایک  زندہ  مثال  تھی، جس میں  ہر  شخص آزادانہ  طور پر اپنی  رائے دینے    کے لیے بڑی  جرأت سے  اپنے  امیر کے سامنے  بات کررہاتھا۔ منصور  صاحب کی جانب سے  بھی  خندہ  پیشانی سے   اسے  قبول کیا جاتا رہا  اور اسے  واضح جوابات بھی  ملتے رہے۔

مجلس کے اختتام پر منصور صاحب نے  ایک  مرتبہ پھر مختصر گفتگو  کی  جو میری یاد داشت میں کچھ اس  طرح   محفوظ ہے:

اسلامی  امارت ہمارا اور آپ کا مشترکہ  گھر ہے۔ ہم کوشش کریں  گے کہ  اس گھر کی  حفاظت کریں، تاکہ کوئی اسے  نقصان نہ پہنچا سکے۔ اپنے  آپ کو  تعصب سے بچائیں۔ باہمی  اتحاد، اطاعت امیر، تقوی،اخلاص اور اعمال کی اصلاح کی طرف پھرپور توجہ دیں۔ کچھ ساتھی  تقوی کا یہ  مطلب اخذ کرتےہیں کہ  صرف مالِ غنیمت اور دوسرے  مالی امور میں  حرام سے  اپنے  آپ کو  بچایا جائے،  لیکن  اس طرح نہیں،   تقوی ہر امر میں  اختیار کرنا  چاہیے۔ مثلاً ساتھیوں کے ساتھ  جہادی  امور  وغیرہ   سب میں  تقوی اختیار کرنا ضروری ہے۔ دوسروں کے  عیوب  تلاش کرنے سے  بہتر ہے بندہ  اپنے عیوب  کی  طرف متوجہ ہو جائے۔ اگر آپ کو امارت اسلامی کی یا کسی اقدام پر  اعتراض ہو    تو خاموشی  اختیار نہ کرو، کم سے کم اپنے   مسئولین  سے  موضوع کے  بارے میں  ضرور وضاحت  طلب کیا کرو۔

امیر ملامنصور  صاحب   نے مجلس کے اختتام پر  ساتھیوں سے خصوصی دعا کی درخواست کی۔ انہوں نے کہا کہ  ان کے کاندھوں پر بہت بھاری ذمہ داری  ڈالی  گئی  ہے۔تمام ساتھی  میری  استقامت اور اصلاح  کی دعائیں کرتے رہاکریں۔ ساتھیوں نے  انہیں  رخصت کیا۔ آپ نے   ایک ہی مجلس میں  سب ساتھیوں کے  دلوں میں  جگہ  بنا لی  تھی۔آپ عاجز، منکسر المزاج   اور بڑے جرأت مند  شخص  تھے۔ یقینا آپ ہی اس قابل تھے کہ آپ مسلمانوں کے امیر ہوں۔ آپ کا فراق یقیناً  تمام عالم اسلام، خصوصا مجاہدین کے لیے ایک  بڑا صدمہ ہے، لیکن  ہم  اللہ   تعالیٰ کی  تقدیر پر راضی ہیں۔آپ ایک  مقدس شخصیت کے مالک   تھے۔   اسی لیے اللہ  تعالیٰ نے   آپ کو شہادت سے سرفراز فرمایا۔ اللہ  تعالیٰ سے دعا  ہے اُنہیں   راہ ِ حق میں جھیلی گئی مشکلات کا اجر عطافرمائے اور ان کی  قربانی قبول فرمائے۔ موجودہ  امیر محترم ملا  ہیبت اللہ اخونذادہ صاحب کے لیے بھی  اُن کے   نقش قدم پر چلنے کی  دعا کرتے ہیں۔ اللہ  تعالیٰ انہیں دشمنوں کی  اذیت سے محفوظ فرمائے ۔آمین یا  رب العالمین