طالبان کی کارروائیاں اورچندحقائق

تحریر : موسی فرہاد امریکہ کی خارجہ امورکے وزیر ہنری کسنجرنے 11 ستمبرکے واقعے کے بعدکہاکہ امریکہ دنیاکی سپرپاورطاقت ہے،اگرانتقام لینے کے لئے افغانستان پرحملہ نہ کیاگیا توایک ‏سپرپاورکی توہین ہوگی،افغانستان پرامریکی حملے ناگزیرہوگئے،دہشت گردوں سے انتقام لیاجائے گااوراس میں کامیابی حاصل کریں گے۔ ہنری کسنجزکی طرح بہت سارے امریکی اس خوش فہمی میں مبتلاتھے […]

تحریر : موسی فرہاد

امریکہ کی خارجہ امورکے وزیر ہنری کسنجرنے 11 ستمبرکے واقعے کے بعدکہاکہ امریکہ دنیاکی سپرپاورطاقت ہے،اگرانتقام لینے کے لئے افغانستان پرحملہ نہ کیاگیا توایک ‏سپرپاورکی توہین ہوگی،افغانستان پرامریکی حملے ناگزیرہوگئے،دہشت گردوں سے انتقام لیاجائے گااوراس میں کامیابی حاصل کریں گے۔

ہنری کسنجزکی طرح بہت سارے امریکی اس خوش فہمی میں مبتلاتھے کہ کامیابی ان کامقدرہے،ان کے خیال میں شکست صرف ان کادشمن ہی کھائے گا،اس لئے بش نے ادھی ‏رات افغانستان پرمزائلوں سے حملہ کیااوراپنے خطاب میں کہاکہ اس معرکہ میں ہم ہی کامیابی حاصل کریں گے اورہمیں تھکاوٹ بھی محسوس نہیں ہوگی،ہمیں دنیاکی کوئی طاقت ‏شکست نہیں دے سکتی،ہمارادشمن جہاں بھی ہوگاہم اس کونیست ونابودکریں گے۔

‏2001ء میں درجنوں کفری ممالک کے تعاون سے افغانستان پرفوج کشی کی حماقت کی گئی،فوجیوں کویہاں لانے کی غلطی کی گئی،ملک بھرمیں فوجی آڈے بنائے گئے،کابل میں ‏کٹھ پتلی حکومت مسلط کرکے سابق کمانڈروں اورجرائم پیشہ عناصرسے افغان نیشنل فوج،پولیس اورپھرحکومتی حامی ملیشیاکے اہلکاروں پرمشتمل لشکرتشکیل دیئے گئے،قوم کے ‏خلاف انہیں مسلح کرکے مدمقابل لاکھڑاکیااورڈالرکے بل بوتے پربہت سارے ضعیف العقیدہ اوربے روزگارلوگوں کوملک کے باغی بناکراپنی خدمت پرمامورکردیا۔

امریکہ اوراس کے اتحادیوں نے ان اقدامات کواہم کامیابی قراردیا،ان کاخیال نہیں تھاکہ ہمیں افغان مجاہدعوام کی شدیدمزاحمت کاسامناکرناپڑے گاجس کے نتیجے میں ہمیں ‏تاریخی شکست سے دوچارہوکریہاں سے بھاگناپڑے گا۔

افغانستان پرقبضہ کرنے کے بعدافغان مجاہدعوام نے مزاحمت کاراستہ اختیارکرکے امریکہ کوناقابل تلافی نقصان پہنچایااوراسے بدترین شکست ہوئی،ہرنئے سال طالبان اپنی ‏کارروائیوں میں تیزی لاتے تھے،امریکی فوجی حکام نے مزیدفوج اورفوجی وسائل بھیجنے کامطالبہ کیا،2011ء میں امریکی کمانڈرمایک مولن نے کہا:‏

I don’t know how long the war will last, but we know that the situation has worsened in the past ‎three and half years and now the Taliban are in a better position…‎‏ —— ‏‎   General Mike” ‎Mullen Chairman of the Joint Chiefs of Staff from October 1, 2007 to September 30, 2011 ‎

مجھے نہیں معلوم کہ یہ جنگ کس طرح ختم ہوگی لیکن ہم جانتے ہیں کہ گزشتہ ساڑھے تین برسوں سے صورتحال خراب ہے اور طالبان اب بہتر پوزیشن میں ہیں،انہوں نے ‏امریکی حکومت کوایک خط لکھاکہ ہم اپنامقصدافغان عوام کاتحفظ بھول گئے ہیں،اب ہمارےفوجیوں کی تمام ترتوجہ اپنی حفاظت پرمرکوزہے،اب تک ایک ہزارارب ڈالرسے ‏زائداخراجات صرف ہوچکے ہیں لیکن اب تک کوئی خاص قابل ذکرکامیابی ہمیں نہیں ملی ہے،اب ہمیں ایسے امورپرغورکرناچاہیے جوہمیں ان گھمبیرحالات سے نکالیں۔

بلاشبہ امریکہ کوافغان جنگ کی بھاری قیمت چکاناپڑے گا،گزشتہ 14برسوں کے دوران امریکہ کے چارسے چھ ٹریلین ڈالراخراجات صرف ہوچکے ہیں،اگرتمام امریکی شہریوں ‏پراتنی خطیررقم تقسیم کریں توفی کس کو 77ہزارڈالرمل سکتے ہیں۔گوکہ اس جنگ میں فی کس امریکی کا77ہزارڈالرنقصان ہوا،اس لئے امریکی تاریخ میں یہ سب سے مہنگی ترین ‏جنگ قراردی جاتی ہے۔

مجبورا امریکہ نے انخلاء کااعلان کردیا،اورساتھ یہ بھی کہاکہ ہم نے اپنے اہداف حاصل کرلئے، مزیدملکی انتظام افغان فورسزکے حوالہ کیاجائے گا،افغان نیشنل آرمی میں یہ ‏صلاحیت موجودہے کہ وہ طالبان کامقابلہ کرسکے،قابض دشمن نے غیراعلانیہ طورپرشکست کاراستہ اختیارکیا،انہوں نے بش اورکسنجرجیسے مشاورین کے مشوروں پرعمل ‏کرکے اب پشیمان نظرآرہے ہیں،سابق امریکی وزیردفاع رابرٹ گیٹس نے اپنی کتاب( ‏Duty‏)میں اوربرطانیہ کے سابق سفیرشیرارڈکوپرکولزنے اپنی کتاب(‏Kabul’s ‎Letters‏)میں ایک جیسالکھاہے کہ افغانستان کے حوالے سے نہ صرف امریکہ اورنیٹونے سنگین غلطی کی بلکہ اقوام متحدہ اورسلامتی کونسل نے بھی تاریخی غلطی کاارتکاب ‏کیاکہ آنکھیں بندکرکے امریکہ کی حمایت کی اوراس طرح غیرمعقول فیصلوں کے باعث ایک عالمی پالیسی سازادارے کوبدترین شکست سے دوچارکردیا ۔

بلاشبہ امریکہ اوراس کے اتحادی ممالک افغانستان میں بدترین شکست سے دوچارہوئے تاہم کچھ لوگ ان کی شکست تسلیم کرنے میں اس لئے تذبذب کاشکار ہیں کہ امریکہ اب ‏بھی ان کے لئے معاشی طورپرسپرپاورہے اوران کے ساتھ مالی تعان کررہاہے،اس لئے وہ امریکہ کی شکست تسلیم کرنے کے لئے تیارنہیں ہیں اوردوسری وجہ یہ ہے کہ میڈیانے ‏اس کی شکست پر اب تک پردہ ڈال رہاہے،جنگ کے اس پورے دورانیہ میں میڈیانے بھرپورکوشش کی کہ امریکہ کی برتری ثابت کرے،کیونکہ ایک صدی سے مغرب ‏بالخصوص امریکہ میڈیاپربہت زیادہ رقم خرچ کررہاہے تاکہ وہ اس کے ذریعے اپنی تہذیب دوسروں پرمسلط کرنے اوراقتصادی اورفوجی پالیسیوں کومشتہراورقائم کرنے میں ‏کامیاب رہے۔ ‏

اس وقت دنیاکے 90 فیصدمیڈیا ایسے 5 بڑے (‏(Hypermedia Companies‎‏ امریکی کمپنیوں جومغرب اور امریکہ کے مفادات کاتحفظ کررہی ہیں،کے مالی کنٹرول ‏میں ہیں اس لئے میڈیابھی بھرپور طاقت کے ساتھ کوشش کرے گاکہ تمام حقائق کومنفی اور امریکہ کے بہترمفادمیں شائع کرے، افغان مجاہدین کی کامیابی کوچھپانابھی ‏میڈیاکاکردارہے۔

‏   تاہم حقیقت یہ ہے کہ امارت اسلامیہ کے جانثارمجاہدین نے کٹھ پتلی حکومت اوراس کے تمام آقاوں کے مذموم عزائم اورمنصوبے خاک میں ملادیں،ہرسال موسم بہارکی ‏آمدکے ساتھ ساتھ نئے نام اورنئی حکمت عملی کے ساتھ جہادی کارروائیاں شروع کرنے کااعلان کرتے ہیں،جوکہ ہرباردشمن کے بھاری جانی ومالی نقصان ہوتا ہے.‏

‏   رواں سال بھی مجاہدین نے بہترین انتظامات کے ساتھ پورے ملک میں قابض افواج اورکٹھ پتلی اہلکاروں کے خلاف اپنی کارروائیاں تیزاورمنظم کرنے کااعلان کردیا اگرچہ اب ‏تک بڑے پیمانے پر اپریشن شروع نہیں کیاہے, تاہم ملک کے بعض علاقوں میں حملے ہورہے ہیں جس نے دشمن کوبوکھلادیاہے.   ‏رواں سال کے ابتدائی تین ماہ میں مجاہدین کی جانب سے دشمن پر دو ہزار اٹھ سو سولہ 2816 حملے ہوچکے ہیں،جن کے نتیجے میں دشمن 6375 اہلکار ہلاک اور زخمی ہوگئے ہیں, جس ‏میں 53 غیر ملکی قابض فوجی شامل ہیں،ان میں 818‎‏ ٹینک اورفوجی گاڑیاں تباہ ہوئیں۔جبکہ339مجاہدین شہید یا زخمی ہو گئے ہیں.یہ وہ اعدادوشمارہیں جنہیں دجالی میڈیانے ‏ہمیشہ چھپانے کی کوشش کی اورمجاہدین کی کامیابی سے ہمیشہ انکارکررہاہے تاکہ کسی کوامریکی شکست کاپتہ نہ چلے کیونکہ پھراس کے ساتھ امریکی حکومت کا مالی تعاون خطرے سے ‏دوچارہوسکتاہے.‏

کابل کے کٹھ پتلی انتظامیہ اس لئے بھی بھوکلاہٹ کاشکارہے کہ حال ہی میں کئی اہم جنگجوکمانڈرمجاہدین کے منظم حملوں میں ہلاک ہوگئے. جیساکہ صوبہ روزگان کےمطیع اللہ خان ‏جوعلاقے میں مشہورظالم کمانڈر اور امریکہ کا بہت قریبی اوربااعتمادساتھ تھا ،وہ سنگین انسانی جرائم کامرتکب تھااور قندھار کے ظالم کمانڈررازق سے کم نہیں تھا. ‏

اسی طرح صوبہ ہلمندکے مشہور ظالم کمانڈرحکمت اللہ حقمل، پکتیکا صوبے کے ایک معروف جنگجوکمانڈرموسی خان اندڑ،صوبہ پروان کے مشہورجنگجوکمانڈرخلیل اللہ ‏ضیائی،قندہارکے ظالم کمانڈرظاہراورصوبہ غزنی کے معروف جنگجوکمانڈرامان اللہ اوراسی طرح شمالی, مغربی اور مشرقی صوبوں میں بڑی تعداد میں ایسے ظالم جنگجوکمانڈرجنہیں براہ ‏راست امریکہ نے جنگی سامان اوراسلحہ سے لیس کیاتھااورکابل حکومت بھی ان پرنازاں تھی، ایک مختصرمدت میں پے درپے حملوں میں مجاہدین نے ان کوہلاک کر دیا گیا. اب ‏صرف رازق جیسے چندظالم اورسنگین انسانی جرائم کے ملوث کمانڈر رہ گئے ہیں جومجاہدین کے نشانہ پرہیں۔

‏ صوبہ فاریاب اوربدخشان میں طالبان کی روزافزوں ترقی نے بھی کابل انتظامیہ کوہلا کررکھ دیا. کابل کے اپنے میڈیا نے کہاکہ: بدخشان میں طالبان سے جھڑپ میں80 ‏سے زائد فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے ہیں. اس سے قبل بھی پارلیمان میں بدخشان کے نام نہادنمائندوں نے مخلوط حکومت کے سربراہ پرزوردیاتھاکہ بدخشان کے 12اضلاع ‏پرحکومت کاکنٹرول کمزورہوتاجارہاہے جن پرکسی بھی وقت مخالفین قبضہ کرسکتے ہیں لہذاان کے ساتھ تعاون کیاجائے۔

اوراسی طرح صوبہ ہلمند           میں کٹھ پتلی حکومت نے ذوالفقاراپریشن شروع کردیا, جو شرمناک شکست سے دوچارہوا، مجاہدین کے زیرکنٹرول علاقوں پرتوقبضہ نہیں کیابلکہ برعکس ‏جن علاقوں پرفورسزکاقبضہ تھاوہاں سے بھی فوجی اہلکارپسپاہوگئے ،درجنوں فوجی ہلاک یاگرفتار ہوگئے، انہوں نے   شہریوں کو ہراساں کیا،علاقے کے نمائندوں نے ‏صوبائی کونسل کے اجلاس میں فوجیوں کے مظالم پرروتے ہوئے بیان کیااور خود ہرچیزکااعتراف کیا.‏

‏ ان کی شکست کے حوالے سے امریکہ کے والسٹریٹ کے صحافی کی رپورٹ کے کچھ نکات پیش خدمت ہے، وہ لکھتے ہیں:

اس آپریشن کے لئے بہت پروپیگنڈے کیے گئے لیکن ‏افغان فورسزاس فوجی اپریشن ناکام رہی.‏

مذکورہ اخبار نے لکھا ہے کہ کابل حکومت نے صوبہ ہلمندمیں بہت بڑاآپریشن شروع کیااورتمام ترتوجہ ضلع سنگین پرمرکوزرکھاجس پرعرصہ درازسے طالبان کا کنٹرول ہے.‏

وال سٹریٹ اخبار نے مزیدلکھاہے کہ افغان فوج نے اس آپریشن میں کامیابی حاصل کرنے کا دعوی کیالیکن علاقے کے لوگوں نے کہا ہے کہ فوجیوں کو جلد ہی اس ضلع سے ‏پسپاکردیاگیا اوراب تمام علاقے طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔

اخبار نے کہا ہے کہ ضلع سنگین میں پولیس نے کہا ہے کہ جن لوگوں کے حکومت کے ساتھ تعلقات تھے وہ ضلع سے فرار ہو گئے ہیں.‏

مذکورہ اخبار نے لکھا ہے کہ وزارت دفاع کے ڈپٹی ترجمان دولت وزیری نے وال سٹریٹ صحافی کوبتایاہے کہ سنگین سے طالبان کونکال دیاگیاہے لیکن وہاں کے رہائشی لوگوں ‏کاکہناہے کہ اب بھی تمام علاقے طالبان کے کنٹرول میں واقع ہے.‏

‏   اوپرمثالوں سے واضح ہوتاہے کہ طالبان کی موجودہ کارروائیوں سے دشمن نہ صرف خوفزدہ ہے بلکہ اس کوہلاکررکھ دے گااور رواں سال دشمن کوپتہ چلے گا کہ اس کے سیاسی ‏اور فوجی تسلط ختم ہونے کے دن قریب ہیں اور وہ اپنے منطقی انجام کوپہنچنے والاہے. اگر اللہ نےچاہا۔

وماذالک علی اللہ بعزیز