طلباء کے قاتل کون ہیں؟

آج کی بات گزشتہ روز انسانیت، اسلام اور ملک دشمنوں کے بہیمانہ ، وحشیانہ اور ظالمانہ حملے میں کابل یونیورسٹی کے درجنوں طلباء مارے گئے۔ اس دلخراش واقعہ سے ایک روز قبل صوبہ غزنی کے ضلع شلگر میں ایک تاریخی مدرسہ نورالمدارس کے اندر ایک پراسرار دھماکا ہوا، لیکن خوش قسمتی سے اس میں کوئی […]

آج کی بات

گزشتہ روز انسانیت، اسلام اور ملک دشمنوں کے بہیمانہ ، وحشیانہ اور ظالمانہ حملے میں کابل یونیورسٹی کے درجنوں طلباء مارے گئے۔
اس دلخراش واقعہ سے ایک روز قبل صوبہ غزنی کے ضلع شلگر میں ایک تاریخی مدرسہ نورالمدارس کے اندر ایک پراسرار دھماکا ہوا، لیکن خوش قسمتی سے اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا جب کہ اس سے قبل تخار کی ایک مسجد پر ہونے والے فضائیہ حملے میں 20 سے زیادہ بچے شہید ہوئے۔
چند روز قبل کابل میں کوثر نامی تعلیمی ادارے پر وحشیانہ حملہ ہوا تھا، لیکن شومئی قسمت کہ ان تمام واقعات کے مجرمین یا تو براہ راست ایوان صدر کے ملیشیا ہیں یا ان کے زیر سایہ پلنے والے خوارج ہیں۔
بے گناہ انسانوں، مذہبی مراکز، تعلیمی اداروں اور پبلک مقامات پر صرف وہی لوگ حملے کرسکتے ہیں جو اسلام پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی انسانیت اور افغانیت کی پرواہ کرتے ہیں، بلکہ صرف اپنے شیطانی مفادات اور خواہشات کو ترجیح دیتے ہیں۔
ملک بھر میں کٹھ پتلی حکومت کے فوجی اڈوں پر مجاہدین کے کامیاب اور فاتحانہ حملے بلا روک ٹوک جاری ہیں، ایوان صدر اور قومی سلامتی کے جنگ پسند عناصر کو اپنے مستقبل کے بارے میں شدید تشویش لاحق ہے، اسی لئے وہ ہر حربہ استعمال کرتے ہیں، تاکہ وہ مجاہدین کے خلاف قوم یا عالمی برادری کے جذبات کو بھڑکائیں اور اپنا دفاع کرسکیں۔
ایوان صدر کی جانب سے امن عمل میں رخنہ ڈالنا اور رکاوٹ پیدا کرنا سب پر واضح ہے، وہ کسی بھی طرح سے مذاکرات کے لئے تیار نہیں ہیں، مذاکرات اور امن ایوان صدر کے نزدیک صرف مجاہدین کو ہتھیار ڈالنا اور جنگ بندی کے نام پر حملے بند کرنا ہے، اس کے علاوہ وہ امن کے نام سے کسی چیز پر یقین نہیں رکھتے۔
گذشتہ روز کابل یونیورسٹی پر حملہ جس کی ذمہ داری ایوان صدر کے پر کے نیچے داعش کے خوارج نے قبول کی، تصاویر جاری کیں، حملہ آوروں کی لاشیں فوری طور پر غائب ہوگئیں، میڈیا کو مزید کوئی ثبوت نہیں دکھایا گیا ، صرف دیواروں پر بچوں کے لکھے گئے الفاظ اور ایک سفید جھنڈا کو ایوان صدر کے امراللہ صالح نے میڈیا کو بطور ثبوت پیش کیا کہ اس حملہ میں مجاہدین ملوث ہیں۔
داعش کی موجودگی سے ایک ایسے وقت میں انکار کیا گیا کہ وہ عالمی برادری کو ہمیشہ یہ کہتے رہتے ہیں کہ قابض افواج کو نہیں جانا چاہئے کیونکہ یہاں داعش سمیت 20 گروپس سرگرم ہیں۔ لیکن آج وہ اس کے وجود سے انکار کرتے ہیں۔
تخار میں جس دن کابل حکومت کے طیاروں نے ایک مسجد پر بمباری کی جس میں متعدد بچوں کو شہید کیا گیا، سب نے تصاویر اور ویڈیو کلپس دیکھے، لیکن ایوان صدر کے حلقوں نے کہا کہ “نہیں ، یہ طالبان کمانڈر تھے۔ امراللہ صالح نے کہا کہ اگر کسی نے یہ بات کی کہ وہ بچے تھے تو انہیں قانونی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔”
اب اس سے پوری قوم جانتی ہے کہ ایوان صدر کا طبقہ کتنا جھوٹا ہے، وہ کتنی بے شرمی سے حقائق سے انکار کرتا ہے، کیوں کہ اب کابل کے حکام خود کو نجیب کی کمیونسٹ حکومت سے زیادہ نازک صورتحال میں دیکھ رہے ہیں۔
امارت اسلامیہ کے مجاہدین اس طرح کی وحشیانہ اور ناجائز حرکتوں کو کبھی برداشت نہیں کرتے، نہ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی جائز سمجھتے ہیں۔ امارت کے مجاہدین جو کٹھ پتلی حکومت کے مضبوط فوجی اڈوں کو اکھاڑ سکتے ہیں ، سپیشل فورس کے نام پر سی آئی اے کے خونخوار ملیشیا کے اڈوں کو ختم کرسکتے ہیں۔ گھنٹوں اور دنوں کے دوران مکمل اضلاع فتح کر سکتے ہیں، تو پھر نہتے طلباء کو نشانہ بنانے ، یونیورسٹیوں ، مدرسوں ، مساجد ، کلینکوں ، دیہاتوں اور گھروں پر حملے کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
بلکہ مجاہدین نے ان بے گناہ شہریوں کے دفاع اور انتقام کے لئے اپنا جہاد شروع کیا ہے۔ کابل انتظامیہ کی فورسز کھلے عام اعلان کررہی ہیں کہ واشنگٹن اور نیو یارک کا تحفظ ان کا فرض ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ یونیورسٹی کے حملہ آور وہ بھگوڑے، شکست خوردہ اور مجاہدین سے ہیلی کاپٹروں میں محفوظ مقام پر منتقل کرنے والے خوارج ہیں جو اب ایوان صدر اور خفیہ ادارے کے زیراہتمام جرائم کے لئے انہیں محفوظ رکھا گیا ہے۔