عقیدے کے ستونوں پر کھڑی امارت

حقمل ضیاء مساجد کے ممبر اور مدارس کی چٹائیوں سے اٹھ کر پروان چڑھنے والی امارت اسلامیہ اپنی ڈھائی عشرے کی عمر میں ہمیشہ سے سخت امتحانات اور بہت سے مسائل کا جرأت سے سامنا کر رہی ہے۔ مزاحمت، صبر، تحمل، بھرپور مقابلے اور کامیابی سبھی کچھ اس کی مختصر تاریخ کا گراں قدر حصہ […]

حقمل ضیاء

مساجد کے ممبر اور مدارس کی چٹائیوں سے اٹھ کر پروان چڑھنے والی امارت اسلامیہ اپنی ڈھائی عشرے کی عمر میں ہمیشہ سے سخت امتحانات اور بہت سے مسائل کا جرأت سے سامنا کر رہی ہے۔ مزاحمت، صبر، تحمل، بھرپور مقابلے اور کامیابی سبھی کچھ اس کی مختصر تاریخ کا گراں قدر حصہ ہے۔ 2001 میں صلیبی جارحیت پسندوں کی طرف سے حملے کے بعد امارت اسلامیہ کے مجاہدین کی فسادات ختم کرنے اور افغان حالات کو سدھارنے کے لیے شروع کی گئی جدوجہد، عالمی صلیبی قوتوں کے خلاف عالمی جہاد میں بدل گئی ہے۔ مجاہدین کے لیے مشکلات ، چیلنجز، دباؤ اور مصائب بڑھ گئے ہیں، یہاں تک کہ کسی کو بھی یہ خیال نہیں آتا تھا کہ صلیب پرستوں کی اس بڑی مادی قوت کے خلاف کوئی اٹھے گا۔ مگر پھر بھی امارت اسلامیہ نے اپنے رب کی مدد سے اسلام، اسلامی سرزمین اور اپنی حیات و عزت کے تحفظ کے لیے کمربستہ ہوگئی۔ اس مزاحمت کی راہ میں ہر قسم کی مشکلات اور تکالیف کو خوش دلی سے سہا ہے۔

افغانستان پر صلیبی جارحیت کا ڈیڑھ عشرہ گزرنے کے بعد مجاہدین کی بے انتہا قربانیوں کی برکت سے ایک بڑی طاغوتی قوت شکست کھا گئی ہے اور اب اُن میں مجاہدین سے براہ راست ٹکرانے کی قوت نہیں ہے۔ وہ فکری اور غیرمحسوس طریقے سے مجاہدین کے خلاف ماضی کی نسبت زیادہ سرگرم عمل ہیں۔ مجاہدین کے درمیان اختلافات، نفرتوں، قیادت کے خاتمے اور  ان کی بدنامی کے لیے ہر وقت نئی سازشیں تیار ہو رہی ہیں ، مگر الحمد للہ! ان کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوسکی ۔ گزشتہ 12 مہینوں پر مشتمل سال مجاہدین کے لیے چیلنجز اور آزمائشوں سے بھرپور رہا ہے۔ اس سال ایسے اہم اور تاریخ ساز واقعات ہوئے، امارت اسلامیہ کی بقا اور اس کا استحکام جن کی زد میں رہا ہے۔ دشمن نے تو خوشی بھی منائی کہ اب امارت ختم ہو چکی ہے۔ لہذا یہ لوگ ہتھیار ڈالیں گے یا مار دیے جائیں گے۔

مگر دشمنان اسلام نہیں جانتے کہ یہ عقیدے اور ایمان والا لشکر ہے۔ ایک کے بعد دوسرے قائد کی موت یا شہادت سے ان کی کارکردگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس لشکر کی جڑوں میں ہزاروں علماء، شیوخ اور صاحب فکر شخصیات موجود ہیں۔ ان میں سے ہر ایک شخص اس تحریک کی قیادت کا اہل ہے ۔ اس لشکر کی جنگ اپنے قائد کے لیے نہیں، بلکہ اللہ تعالی کی رضا کے لیے ہے۔ اس لشکر کا ہر مجاہد راہِ جہاد  میں قربانی اور شہادت کو اپنا اصل مقصد سمجھتا ہے۔ یہ لشکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قدم پر قدم رکھ کے چل رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : الجہاد ماض الی یوم القیامہ۔ اسلام کے دشمن جس بہروپ میں بھی کوشش کریں، اسلام کی شمع کو نہیں بجھا سکیں گے۔ اللہ تعالی اپنے دین کی حفاظت خود کر رہا ہے۔ گزشتہ بارہ ماہ کے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے:

  1. امارت اسلامیہ واقعتا ایک عقیدے والا لشکر ہے۔ اس کے جتنے بھی رہنما مارے جائیں، یہ کارواں چلتا رہے گا۔
  2. امارت اسلامیہ کی رہبری شوری ایسی منظم شوریٰ ہے، جو ہر طرح کے سخت حالات میں اللہ تعالی کی نصرت سے امارت سے متعلق درست فیصلے کر کے اسے بہتری کی طرف لے جاتے ہیں۔
  3. شہید امیرالمؤمنین ملا اختر محمد منصور کی مظلومانہ شہادت سے دنیا کی طاغوتی قوتوں کے رہنماؤں کی خوشی نے یہ ثابت کر دیا کہ اسلام دشمن قوتیں امارت اسلامیہ کے رہنماؤں اور مجاہدین سے کس قدر دہشت زدہ ہیں۔ یہ بھی ان کی حقانیت کا ایک بڑا ثبوت ہے ۔
  4. امارت اسلامیہ کے نئے سربراہ امیرالمؤمنین شیخ القرآن والحدیث مولوی ہیبت اللہ اخندزادہ کی ایک ہی آواز پر مجاہدین اور عوام کی یکجہتی نے یہ ثابت کر دیا کہ امارت اسلامیہ متحد ہے۔ اب یہ صف ان لوگوں سے پاک ہے، جو غیروں کے اشاروں پر اسے نقصان پہنچانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔
  5. امارت اسلامیہ کی طرف سے عمومی طور پر، لیکن خصوصا رمضان المبارک کے مہینے میں افغانستان کے گوشے گوشے میں معذوروں،یتیموں اور محتاج خاندانوں میں وسیع پیمانے پر غذائی اجناس کی تقسیم مظلوم عوام سے مجاہدین کی ہمدردی اور محبت کا معیار ظاہر کرتی ہے۔
  6. مجاہدین کی جانب سے مذاکرات کے نام پر ان کے خلاف بنائے جانے والی سازشوں کا خاتمہ، ان الزامات کے جواب کے لیے کافی ہے، جن میں مجاہدین کو مختلف اداروں کا آلہ کار کہا گیا ہوتا ہے۔
  7. کابل کٹھ پتلی گروہ کی جانب سے 7 مظلوم قیدیوں کی پھانسی کے بعد انتقامی کارروائیوں کے دوران اشرف غنی گروپ کے اہم عدالتی مراکز کو نشانہ بنانا اور انہیں پہنچنے والے بھاری جانی و مالی نقصان نے یہ ثابت کر دیا کہ امارت اسلامیہ محض کھوکھلی دھمکیوں پر یقین نہیں رکھتی۔ وہ اپنے مجاہدین اور عوام پر ہونے والے مظالم کا بدلہ لے کر رہتی ہے۔