عوامی احتجاج کی روک تھام اور اظہار رائے

آج کی بات کابل میں میڈیا اور انسانی حقوق کے نام سے سول سوسائٹی کے متعدد گروہ ہمیشہ امارت اسلامیہ کے خلاف یہ پروپیگنڈے کرتے ہیں کہ مجاہدین میڈیا کی آزادی پر یقین نہیں رکھتے ہیں اور اسی طرح شہری ہلاکتوں میں احتیاط نہیں کرتے ہیں۔ لیکن جب کابل انتظامیہ یا اس کے غیر ملکی […]

آج کی بات

کابل میں میڈیا اور انسانی حقوق کے نام سے سول سوسائٹی کے متعدد گروہ ہمیشہ امارت اسلامیہ کے خلاف یہ پروپیگنڈے کرتے ہیں کہ مجاہدین میڈیا کی آزادی پر یقین نہیں رکھتے ہیں اور اسی طرح شہری ہلاکتوں میں احتیاط نہیں کرتے ہیں۔
لیکن جب کابل انتظامیہ یا اس کے غیر ملکی حامیوں کی جانب سے دن دیہاڑے یہ سب کچھ روند جاتا ہے تو وہی میڈیا اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں خاموشی اختیار کرتی ہیں یا اس کا جواز پیش کرتی ہیں۔
گزشتہ دنوں قندھار کے ضلع ارغنداب کے علاقے ناگان میں طالبان کے نام پر ایک خاندان کے 13 افراد جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، پر بمباری کی گئی اور پھر ان سفاک قاتلوں نے طالبان کمانڈروں کو مارنے کا جھوٹا دعوی کیا۔ یہ تو ایک مثال ہے جب کہ اس سے قبل ایسے ہزاروں واقعات ملک کے مختلف علاقوں میں رونما ہوچکے ہیں۔
مگر مغرب نواز میڈیا اور نام نہاد انسانی حقوق کے ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور الٹا مجاہدین کو مورد الزام ٹہرایا جاتا ہے کہ وہ انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کی پاسداری نہیں کرتے ہیں۔
ناگان واقعہ جس کی خبر میڈیا نے شائع کی اور نہ ہی انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں نے اس کی مذمت کرنے کی زحمت کی، علاقے کے عوام مجبور ہوئے کہ وہ لاشوں کے ہمراہ گورنر ہاوس کے سامنے احتجاج کریں تاکہ عوام اور عالمی برادری اپنی آنکھوں سے کابل حکومت کے اس گھناؤنے جرم اور سفید جھوٹ کو دیکھ سکیں۔
جب وہ شہر کے قریب پہنچے تو حکام نے انہیں روک دیا، سڑکیں بند کردیں ، مظاہرین کو لاشیں گورنر ہاوس کے سامنے لانے کی اجازت نہیں دی، کیونکہ اس سے جابر حکام کی بربریت اور جھوٹ بے نقاب ہو جاتے۔
حکام سے شکوہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ پچھلے 20 سالوں سے واشنگٹن اور نیویارک کے تحفظ کے لئے اس غریب قوم کو بے دردی سے قتل کررہے ہیں۔
لیکن میڈیا اور کچھ نام نہاد انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں جو مجاہدین کے ایک چھوٹے سے حادثے کو اتنی کوریج دیتی ہیں جو تمام اصولوں کے خلاف کارروائی پیش کرتی ہیں لیکن کابل میں کٹھ پتلی حکومت اور اس کے غیر ملکی آقاوں کے انسانیت سوز مظالم کے بارے میں خاموش ہیں۔ قندہار کے ضلع ارغنداب کا واقعہ مختلف زاویوں سے ایک بڑا جرم سمجھا جاتا ہے ، ایک یہ کہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں دو دن قبل حکام نے متنبہ کیا تھا کہ اگر وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو اس علاقے سے نقل مکانی کریں چونکہ سردی کے اس موسم میں اور اتنے کم وقت میں لوگ کہاں جائیں؟
اور پھر دھمکی کے فورا بعد ظالمانہ فضائی حملے شروع ہوتے ہیں، کہ یہاں طالبان موجود ہیں، حالانکہ یہ غیر معقول ہے کہ فضائی حملوں کے مقامات پر گھومنے والے طالبان ٹہریں۔
جب لوگوں پر بمباری کی جاتی ہے تو کٹھ پتلی حکام سیکڑوں طالبان کو مارنے کا مضحکہ خیز دعوی کرتے ہیں لیکن جب خواتین اور بچوں کی شہادت کی خبریں اور تصاویر سوشل میڈیا پر شائع ہوتی ہیں تو حکام فوری طور پر دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ مجاہدین کا کار بم حملہ تھا اور جب علاقے کے متاثرہ لوگ اپنے شہدا کی لاشوں کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں اور شہر میں احتجاج کرتے ہیں تو حکام کی جانب سے انہیں روکا جاتا ہے اور احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
لیکن یہ سارا معاملہ کابل میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے سامنے ہے لیکن اس کے باوجود وہ بہرے ہو گئے ہیں، ایک آدھا میڈیا جب یہ خبر شائع کرتا ہے تو اس جرم کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دعوی کرتا ہے کہ طالبان شہریوں کے گھروں میں گھس گئے تھے۔
کیا یہ جھوٹا دعوی کٹھ پتلی حکومت کو عام شہریوں کے قتل عام کی اجازت دے کرسکتا ہے، اور کیا انسانی حقوق کی تنظمیں اور نام نہاد آزاد میڈیا اس طرح کی مجرمانہ خاموشی کے بعد بھی آزادی اظہار رائے اور انسانی حقوق ک کا جھوٹا دعویٰ کرسکتے ہیں؟