عیاش نوحہ گر کی سازش

نسیم خان محمدی اپنے سے بڑا قدرکھنے والے امریکا کو جینے کے لیے بے حد سخت جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ وہاں بسنے والی 30 کروڑ کی آبادی کو صرف زندہ ‏رہنے کے لیے ہی نہیں، بلکہ عیاشی کے ساتھ زندگی جینے کے لیے کثیر سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اس سرمائے کو حاصل کرنے […]

نسیم خان محمدی

اپنے سے بڑا قدرکھنے والے امریکا کو جینے کے لیے بے حد سخت جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ وہاں بسنے والی 30 کروڑ کی آبادی کو صرف زندہ ‏رہنے کے لیے ہی نہیں، بلکہ عیاشی کے ساتھ زندگی جینے کے لیے کثیر سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اس سرمائے کو حاصل کرنے لیے ‏مختلف ذرائع اختیار کرتا ہے۔ ذریعہ آمدنی کے جائز یا ناجائز ہونے کے حوالے سے کوئی چھان بین نہیں کی جاتی۔ اس کا فائدہ یہ ہے ‏کہ جو ملے، جیسا ملے اور جہاں سے ملے، اُڑا کر کھا لیا جاتا ہے۔ ہاں اگر کچھ بچ جائے تو لوگ کہتے ہیں کہ سمندر کی مچھلیوں کو بھی ان کا ‏رزق ”پہنچانا” کارِ ثواب ہے۔ کیوں کہ جانوروں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں۔ آمدنی کی انہی پائپ لائنوں میں سے ایک لائن اسلحے کی ‏خریدوفروخت کی بھی ہے۔

‏   آج مفادات کی جنگوں کا بڑھتا ہوا رجحان انسان کو ایٹم کے استعمال پر مجبور کر چکا ہے۔ شاید تیل کے بعد اسلحے کے کاروبار میں جتنا نفع ‏حاصل ہو سکتا ہے، اتنا کسی اَور کاروبار میں نہیں ہے۔ امریکا اور اس کی حواری مغربی و مشرقی طاقتیں اس کاروبار سے جتنا کما کھا رہی ہیں، ‏اس کا نصف سے زیادہ مسلم ممالک سے وصول کیا جاتا ہے۔ لیکن اسلحے کی تجارت کے لیے یہ ضروری ہے کہ پہلے اس مہلک ہتھیار کی ‏طلب پیدا کی جائے۔ آج کی بزنس دنیا کا یہی وہ ہتھکنڈہ ہے، جس کے استعمال سے وہ دنیا بھر میں معیشت کی ترقی یا مندی کا اولمپکس ‏منعقد کیے ہوئے ہے۔ اسی کو سامنے رکھ کر جانوروں کے حقوق کی تحفظ کے لیے گلے پھاڑ پھاڑ کر آوازے بلند کرنے والے امریکی دانش ‏ور مسلم ممالک اور ترقی پذیر ملکوں سمیت تیسرے درجے کے ممالک کو آپس میں‎ ‎لڑا کر اسلحہ فروخت کرنے کا ڈھنگ اختیار کروائے ‏ہوئے ہیں۔ جس سے اسلحہ بنتا اور بِکتا ہے۔ مرتے یہ ہیں اور ان کی میتوں پر نوحے منعقد کر کے عیاشی وہ لوگ کرتے ہیں۔

‏   اگر گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو ٹیڑھی انگلی استعمال کرنےسے بھی گریزنہیں کیاجاتا۔ برطانوی بین الاقوامی نشریاتی ادارے ‏bbc‏ کی جانب ‏سے شایع ہونے والی یہ خبر کہ ”طالبان کو ایران کی جانب سے مالی و عسکری امداد” مل رہی ہے، اسی ٹیڑھی انگلی کی منافقانہ چال بازیوں کا ‏ایک عمدہ شاہکار ہے۔ جس میں بی بی سی نے اپنے سابقہ رویے کی لاج رکھتے ہوئے خبر نگاری کے اسرارورموز کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ اور اسلحہ فروخت کروانے میں مغربی طاقتوں کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ بی بی سی نے خود ساختہ قیاس آرائی سے کام لیتے ہوئے ‏کہا ہے کہ: ”ایران اپنے سیاسی، عسکری اور نظریاتی حریف ”دولت اسلامیہ” کے خلاف جنگ میں شکست کے آثار محسوس کر کے ‏طالبان کی جانب باہمی اعتماد کا ہاتھ بڑھانا چاہتا ہے۔ وہ اپنے اور مبینہ طور پر باور کیے جانے والے طالبان کے سخت دشمن ”دولت ‏اسلامیہ” کو مشترکہ مشن میں خود سے دور رکھنے کی کوششوں میں ہے۔ اسی لیے وہ طالبان کے لیے مالی و عسکری امداد میں اضافہ کر رہا ‏ہے۔”

اس بارے میں جب امارت اسلامیہ سے اس بارےمیں پوچھاگیا توانہوں نے کہا کہ ”حالیہ دنوں ‏میں امارت اسلامیہ کا ایک اعلی وفد ”محمد طیب آغا” کی قیادت میں ہم سایہ ملک ایران تشریف لے گیا تھا۔ وفد نے ایرانی حکام سے ‏افغانستان کی موجودہ صورتِ حال، خطے میں امن و امان، عالم اسلام اور ایران میں موجود افغان مہاجرین کے حوالے سے گفتگو کی تھی۔ ‏یہ بات ذہن نشین رکھنے کے قابل ہے کہ مذکورہ دورہ اُن عام دروں کا ہی ایک حصہ ہے، جو امارت اسلامیہ کی جانب سے مختلف ممالک ‏کے ساتھ مشترکہ موضوعات کی تحقیق، باہمی روابط، و تعلقات کی غرض سے کیے جاتے رہے ہیں۔ امارت اسلامیہ کی ‏وفود نے اس سے قبل جاپان، فرانس اور چین کے بھی دورے کیے ہیں۔ جب کہ یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رکھا جائے گا۔

‏   بی بی سی کی جانب سے ایسی بے بنیاد خبریں ہمیشہ سے جاری کی جاتی رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ ان خبروں کے پسِ پردہ چھپی ‏اصل حقیقت کو پالینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟ پہلے تو طالبان کے پاس اپنا کوئی ذریعہ پیغام رسانی نہیں تھا، دشمن نے ہماری اس کمزوری ‏کا مکمل فائدہ اُٹھا کر لوگوں کو گم راہ کیا تھا۔ ہمارا خیال ہے کہ اب ایسا ہونا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ اب دنیا طالبان کو طالبان ہی کے ذریعے ‏سے جاننا چاہتی ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ کون سا ملک ہمیں آپس میں لڑا کر اپنے مذموم مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اب دنیا اس ‏حقیقت کو جان گئی ہے کہ کسی کے بارے میں جاننے کا سب سے بہتر راستہ یہی ہے کہ اُسی سے معلوم کر لیا جائے کہ ”آپ کی حقیقت کیا ‏ہے؟ اور دوسرے لوگ آپ کے بارے میں جو کچھ کہہ رہے ہیں، وہ سچ ہے یا جھوٹ؟” اس مثبت تبدیلی کا آغاز ایوان ریڈلے سے ‏شروع ہو چکا ہے۔ اُن کے طالبان کے حوالے سے شایع شدہ تاثرات پڑھ کر لوگ اندازہ کر رہے ہیں کہ طالبان کا اصل چہرہ وہ نہیں ‏ہے، جو مغربی میڈیا دکھاتا ہے۔

‏   طالبان نے بی بی سی خبر پر مزید اظہارِ خیال کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دشمن کی جانب سے سازش کی حد تک یہ کوشش کی جا رہی ‏ہے کہ مشرق وسطی خصوصا ایران اور امارت اسلامیہ کے عسکری حالات کے بارے میں خیالی تبصرہ آرائی کر کے طالبان ہمدردوں کو ‏بدظن کیا جا سکے۔ تاکہ ایرانی امداد کے ذکر سے دولت اسلامیہ اور طالبان کے درمیان نظریاتی اختلاف کی اڑتی ہوئی خبروں کو حقیقت ‏کی صورت دی جاسکے۔ جس سے مشرق وسطی اس سے زیادہ افغانستان کے حالات کو مزید گمبھیر بنا کر جنگ کو طول دیا جائے۔ تاکہ اسلحے ‏کی دن دگنی رات چگنی منافع بخش تجارت سے کالا دھن کمایا جائے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھوک، کَسمپرسی اور عدمِ ‏استحکام کے بیابان میں بھٹکنے کے لیے بے یارومددگار چھوڑا جائے۔ نتیجۃ خود زندگی کے پُرتعیش دن اور لذت آفرین راتیں گزاری جا ‏سکیں۔

حقیقت سے دور بی بی سی کی تبصرہ آرائی کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ موجودہ حالات میں طالبان نے بین الاقوامی معیار کے مطابق ‏باہمی اعتماد سازی کے حوالے سے جو پالیسی بنائی ہے اور اسے سیاسی ٹریک پر چڑھایا ہے، دشمنوں کو یہ ‏کامیابی ہضم نہیں ہو رہی۔ ان سے یہ نہیں دیکھا جا رہا کہ طالبان کے سیاسی وفود کیوں کر سفارتی میدان میں کامیاب ہوتے جا رہے ہیں! ‏اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس حقیقت کو ہم ہی بہتر جانتے ہیں کہ ہمیں امداد کی ضرورت ہے یا نہیں؟ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ جنگوں ‏کی چکی چلانے والوں اور ان میں پسنے والوں میں سے کون مدد گار ہے اور کون بھکاری ہے؟ ہم یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم ‏نے پہلے کبھی امداد کے لئے کسی سے کہا ہے اور نہ ہی آئندہ ہماری جانب سے امداد کے لیے کسی سے کچھ کہے جانے کی توقع کی جا نی ‏چاہیےالبتہ عام مخلص مسلمان اپنے مجاہدین بھائیوں کی مددکواپنا فریضہ سمجھتے ہیں اورامارت اسلامیہ بھی ان کے امدادوتعاون کو خوشی سے قبول کرتی ہے ۔ ہمارے آباؤ اجداد نے وہ زمانہ بھی گزارا ہے، جب لاٹھیوں اور کلہاڑیوں کے ساتھ دشمن کے ٹینکوں کا مقابلہ کیا جاتا تھا۔ اور ‏سرخ ریچھ کو ناکام و نامراد ہونا پڑا تھا۔ آخری فتح ایمان کی ہوتی ہے۔ یہ بات ہما رے ہر قسم کے دشمن کو سمجھ لینی چاہیے!!‏