افواج کی تعداد بڑھانے کی ناکام پالیسی

بدقسمتی سے امریکہ نے اب تک افغانستان اپنی سولہ سالہ خونریز جارحیت اور ناکام جنگ سے عبرت حاصل نہیں کی ۔ اب بھی کوشش کررہی ہے کہ فوجیوں کی تعداد میں اضافے سے افغانوں پر اپنی مرضی کے جنگجویانہ نظام کو مسلط اور جارحیت کو جاری رکھے۔ واضح ہے کہ فوجیوں کا اضافہ استعمار کی […]

بدقسمتی سے امریکہ نے اب تک افغانستان اپنی سولہ سالہ خونریز جارحیت اور ناکام جنگ سے عبرت حاصل نہیں کی ۔ اب بھی کوشش کررہی ہے کہ فوجیوں کی تعداد میں اضافے سے افغانوں پر اپنی مرضی کے جنگجویانہ نظام کو مسلط اور جارحیت کو جاری رکھے۔ واضح ہے کہ فوجیوں کا اضافہ استعمار کی کامیابی کی ضمانت نہیں کرسکتی، بلکہ جنگ اور خون بہانے کا سبب بنتی ہے۔

گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے افغانستان میں بیرونی افواج کی موجودگی نے افغانوں کو بدامنی، غربت اور تباہی کے علاوہ کچھ نہیں دی۔ یہاں ان کی موجودگی میں ظلم اورکرپشن نے ایک منحوس ثقافت کی شکل اپنائی ہے۔ منشیات میں اضافہ ہوا ہے،  افغان عوام میں نسلی اور علاقائی اختلافات کو پروان چڑھائے جارہے ہیں، مختصر یہ کہ گزشتہ کئی سالوں میں استعمار اور اس کے حامیوں کی جانب سے دلکش نعروں کے باوجود افغانستان میں عوام کے مسائل میں کیا کمی یا اضافہ ہوا ہے؟ ملک  صرف ٹی وی گانوں اور فحش سیریلوں سے ترقی کرتی ہے اور نہ ہی عوام کو سکون ملتا ہے۔

امریکہ کو سمجھنا چاہیے کہ قوت سے حکومت نہیں ہوسکتی۔ جارحیت کو ختم کرنا چاہیے۔  وہ افراد جن کو تم نے افغان عوام پر مسلط کیے ہیں، وہ افغانوں کے عقیدہ اور روایات سے ناآشنا افراد ہیں اور یا وہ لوگ ہیں، جو بذات خود موجودہ جرائم کے ایک حصے کو تشکیل دیتے ہیں۔ صرف اتنا کچھ کرچکے ہو کہ چار  ارب ڈالر دینے بعض افغانوں کو ان کی حالت سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی صورت میں قومی فوج اور پولیس کے نام سے  کرائے کے  قاتلوں کی طرح اپنی حریت پسند عوام کے خلاف لڑائے اور ب بھی لڑوا رہے ہو۔

ملک کی خودمختاری اور عوام کے اسلامی عقیدے اور قومی روایات کے مطابق نظام کا قیام افغانوں کا جائز اور انسانی حق ہے۔کافی ہے، یہ دھوکہ مار کھیل جو اپنی جارحیت اور افغان سرزمین پر قبضے کو قانونی سمجھتے ہو، مگر افغانوں کی خودمختاری کے اسلامی مزاحمت کو غیر قانونی سمجھتے ہو! یہ بھی مسئلے کا حل نہیں ہے،  کہ حریت پسند افغانوں کو کہتے ہو کہ تم جب جنگ آزادی سے دستبردار ہوجاؤگے، تو ہم انخلاء پر غور کرینگے، بلکہ افغان تمہیں ہی کہہ رہے ہیں کہ کب جارحیت سے دستبردار ہوجاؤگے اور افغان عوام کے جائز حقوق کو تسلیم کروگے۔

اگر تمہار مقصد یہ  ہے کہ افغانستان سے تمہارے ممالک کو  خطرہ لاحق ہے  اور تمہیں تحفظات ہیں، یہ بحث قابل ہے ، آئیے ہمارے ساتھ جارحیت کے اختتام کے حوالے اور تمہاری تحفظات کے متعلق گفتگو کریں، اگر تمہار ا ہدف افغان قبضے کو جاری رکھنا ہے  اور یہاں افغان مسلمان عوام کو اسلامی نظام کے قیام سے محروم رکھتے  ہو، تو یہ ناقابل قبول اور ناممکن ہے۔ اس حقیقت کو درک کرنا چاہیے۔