قوم کس حالت میں ہے اور کابل حکام کیا کر رہے ہیں؟

آج کی بات کچھ عرصہ قبل 17 اکتوبر کو غربت کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر ایسی خبریں شائع ہوئیں کہ افغانستان میں غربت عروج پر ہے اور ملک کی 54 فیصد آبادی اس وقت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اس سلسلے میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم […]

آج کی بات

کچھ عرصہ قبل 17 اکتوبر کو غربت کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر ایسی خبریں شائع ہوئیں کہ افغانستان میں غربت عروج پر ہے اور ملک کی 54 فیصد آبادی اس وقت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اس سلسلے میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم نے کہا ہے کہ افغانستان میں ایک تہائی لوگوں کے پاس کھانے کے لئے کھانا نہیں ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ کورونا بحران نے ملک کی معاشی صورتحال کو مزید ابتر کردیا ہے اور پہلے سے بھوک و افلاس کا شکار لوگوں کے علاوہ مزید تیس لاکھ لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہوگئے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں کہ جب میڈیا پر عوام کی غربت ، بے روزگاری اور ہر طرح کی پریشانیوں کے اعدادوشمار شائع ہوتے ہیں تو دوسری طرف ایوان صدر سے بدعنوانی ، فضول خرچی ، اسراف اور عیش و عشرت کے ایسے ہولناک اعداد وشمار منظر عام پر آتے ہیں۔
حال ہی میں منظرعام پر آنے والی دستاویزات میں انکشاف ہے کہ ایوان صدر سے وابستہ 15 عہدیداروں نے گزشتہ سال کے دوران 123 ملین افغانی کو اپنے ذاتی اخراجات جیسے گھر کا کرایہ ، کھانے ، سفری اخراجات اور دیگر ذاتی اخراجات پر خرچ کیا۔ ان میں سے ایک ایسا عہدیدار بھی ہے جس نے 3 کروڑ افغانی خرچ کیے ہیں۔ یہ وہ رقم ہے جو ان عہدیداروں کو سرکاری تنخواہ اور مراعات کے علاوہ ادا کی گئی ہے اور کوڈ 91 کے تحت انہیں ادا کی گئی ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان عہدیداروں نے سرکاری تنخواہوں ، مراعات ، رشوت اور غبن کی شکل میں ملک سے کتنی رقم چوری کی ہے۔
ملک و قوم کی اس گھمبیر صورتحال میں حکمرانوں کا یہ اسراف اور فضول خرچی یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ خود کو اس ملک اور اس کے عوام سے وابستہ نہیں سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایوان صدر نے وسیع افغانستان میں جزیرے کی شکل اختیار کیا ہے۔ ایوان صدر کے حکام لوگوں کی حالت زار سے واقف ہیں اور نہ ہی انہیں کوئی پریشانی محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی وہ قوم سے ہمدردی رکھتے ہیں۔
لوگوں کے پاس کھانے کے لئے سوکھی روٹی نہیں ہے لیکن ایوان صدر کی دیواروں کے پیچھے چھپے ہوئے حکام کھانوں پر لاکھوں افغانی خرچ کرتے ہیں۔ اس سے ایوان صدر اور لوگوں کے مابین فاصلے کا بجوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اور یہ حقائق ہمارے اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں کہ کابل انتظامیہ دراصل افغانی شناخت نہیں رکھتی۔ یہ ادارہ ان عہدیداروں پر مشتمل ہے جسے غیر ملکیوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے افغانستان پر مسلط کیا ہے۔ وہ نہ تو عوام کی اقدار کے پابند ہیں اور نہ ہی لوگوں کے درد سے آگاہ ہیں۔
ان مسائل کا حل یہ ہے کہ افغانستان میں اقتدار کو ملک کے حقیقی محافظین  کے حوالے کیا جائے، جو وطن عزیز کے مسائل سے واقف ہیں، لوگوں کے ساتھ مل کر رہنے کا تجربہ رکھتے ہیں، عوام کے جذبات جانتے ہیں  زبان میں لوگوں اور لوگوں کی زبان جانتے ہیں۔ وہ لوگوں کے درد اور مصائب کو محسوس کرتے ہیں اور لوگوں کے لئے اپنی جان اور مال کی قربانی دیتے ہیں۔