مقدس جہاد الہی فریضہ اور اخلاقی ذمہ داری ہے

ہفتہ وار تجزیہ جنگ انسانی طبیعت اور تہذیب کا خلاف عمل ہے، عاقل انسان کسی صورت میں جنگ کو پسند نہیں کرتا اور جنگ کی تباہی اور دلخراش آثار سے نفرت کرتا ہے۔ سالم طبیعت کا مالک تہذیب و تمدن وغیرہ  کیساتھ امن کی پرسکون فضا میں زندگی گزارنے کو بہتر سمجھتا ہے، جس میں […]

ہفتہ وار تجزیہ

جنگ انسانی طبیعت اور تہذیب کا خلاف عمل ہے، عاقل انسان کسی صورت میں جنگ کو پسند نہیں کرتا اور جنگ کی تباہی اور دلخراش آثار سے نفرت کرتا ہے۔ سالم طبیعت کا مالک تہذیب و تمدن وغیرہ  کیساتھ امن کی پرسکون فضا میں زندگی گزارنے کو بہتر سمجھتا ہے، جس میں دین، جان، مال ، اولاد اور عزت محفوظ ہو۔ اس لیے کہ  انسان کے یہ مطالبات تحقق پیدا کریں اور پرامن ماحول میں اللہ تعالی کی بندگی اور عبادت کریں۔ اللہ تعالی اپنے فضل وکرم سے اسلامی نظام نافذ کریں، تاکہ انسانی جائز مطالبات اور ضروریات کو فراہم  کریں۔بدمعاشوں کی جانب سے فردی اور  اجتماعی حق تلفی کا سدباب کریں اور ان افراد کو لگام لگادیں،  جو عوام کی زندگی اور قسمت سے کھیلنا اور افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں۔

اسلامی نظام کا ایک اہم جز جہاد ہے۔ جہاد ایسی مقدس لڑائی ہے، جسے اللہ تعالی نے ظلم بربریت اور وحشت کے روک تھام ، انسان کے لیے زمین پر رہنے اور فساد سے خاتمہ  کی خاطر فرض کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی سورہ حج میں فرماتے ہیں:

 ( أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ} (الحج ۳۹)   

ترجمہ :جن مسلمانوں سے خواہ مخواہ لڑائی کی جاتی ہے ان کو اجازت ہے کہ وہ لڑیں کیونکہ ان پر ظلم ہورہا ہے۔ اور اللہ ان کی مدد کریگا وہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔

سورہ بقرہ میں اللہ تعالی نے رہنمائی فرمائی ہے کہ غاصبوں کے سامنے مجاہدین کا ڈٹ جانا اور قتال کے میدان میں جالوت کی طرح طاغوتی اور سرکش عناصر کو شکست دینا، زمین کے نظام اور اصلاح کے لیے ضروری ہے۔اس کے برعکس جہاد چھوڑنا  اور ایمانی اقدار سے دفاع نہ کرنا، دنیا بھر کی تباہی ہے۔

 (وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ} (البقرة۲۵۱.  )

ترجمہ” اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے پر چڑھائی اور حملہ کرنے سے نہ ہٹاتا رہتا تو  کرہ ارض تباہ ہوجاتا لیکن اللہ اہل عالم پر بڑا مہربان ہے”۔

دنیا کو معلوم ہے کہ غاصب امریکہ اور اس کے وحشی فوجوں نے گذشتہ پندرہ برس کے دوران وطن عزیز میں افراتفری مچا رکھی ہے۔ افغانوں پر کتنے عظیم عظیم مظالم ڈھائے، بےگناہ انسانوں کا قتل عام، مکمل بستیوں اور علاقوں کو نابود کیے۔ عورتوں، بچوں اور عام شہریوں پر کسی قسم کا رحم نہیں کیا۔ سب سے عظیم ظلم اخلاقی فساد اور لادینی کا ترویج ہے۔جس پر اربوں ڈالرز خرچ کیے، تاکہ افغانوں کو  ان کے ثقافت، رواج،  اور اخلاقی روایات سے منحرف کریں، سب سے اہم یہ ہے کہ استعمار نے ہماری مقدس سرزمین پر جارحیت کی ہے۔ وطن عزیز کی خودمختادی اور استقلال کو غصب کی ہے۔ جنگ کو ہم پر مسلط کی ہے۔ استعمار کے ان وحشتوں نے افغانوں کو مجبور کردیا کہ ظلم کے خلاف اسلحہ اٹھائیں ،اپنے دین، نفس، مال اور ناموس سے دفاع کریں  اور جہاد کی فرضیت کی الہی حکم کو عملی جامہ پہنا دیں۔

یہی وجوہات ہیں کہ امارت اسلامیہ کا حالیہ اعلامیہ شرعی نظام ، آزادی کی اعادہ اور عوام کے جان و مال اور ناموس سے دفاع کی غرض سے مقدس جہاد کو جاری رکھنا ضروری سمجھتی ہے ۔ مگر عین حال میں جہادی جنگ کے تقدس پر اصرار بھی رکھتی ہے۔ مخالفین کے لیے دعوت و ارشاد کے شرعی طریقے کو کھلی رکھی ہے۔ شہری نقصانات کے روک تھام کا مطالبہ کرتی ہے اور تمام افغانوں کے جان و مال کی حفاظت کا وعدہ کی ہے۔ ملک کے عملی اور فنی اشخاص، سرمایہ داروں اور عام شہریوں کو امن اور تحفظ کا اطمینان دلایا ہے۔ اعلامیہ کے ایک پیراگراف میں یوں تحریر ہے کہ “” عمری آپریشن میں امارت اسلامیہ کے مجاہدین کو  فوری ہدایت دی گئی ہے کہ اپنے آپریشن کو اس طرح منظم کریں، جس میں عوام اور عام المنفعہ تنصیبات کی حفاظت پر خاص توجہ دی گئی ہو۔عمری آپریشن کے نتیجے میں جو علاقے، گاؤں یا شہر مجاہدین کے زیرکنٹرول آتے ہیں، تو امارت اسلامیہ وہاں  کے باشندوں کی جان و مال کے  تحفظ کے لیے پرعزم ہے اور اسے اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے””۔ واللہ لموفق