ملکی مسائل کا حل قبضے کے خاتمے سے منسلک ہے

جب کوئی ملک مقبوضہ ہو، اس کے  زمین اور فضا پر اجنبی حاکم ہو اور  ملک کا نظام اجنبی اشاروں کے مطابق چل رہا ہو، طبعا  وہاں امن و امان کی جگہ کو انارشزم اور ناامنی لے گی، کیونکہ عوام آزادی اور خودمختاری چاہتی  ہے  اوراس کے برعکس  رژیم عوامی مطالبات کے مقابلے میں استعماری […]

جب کوئی ملک مقبوضہ ہو، اس کے  زمین اور فضا پر اجنبی حاکم ہو اور  ملک کا نظام اجنبی اشاروں کے مطابق چل رہا ہو، طبعا  وہاں امن و امان کی جگہ کو انارشزم اور ناامنی لے گی، کیونکہ عوام آزادی اور خودمختاری چاہتی  ہے  اوراس کے برعکس  رژیم عوامی مطالبات کے مقابلے میں استعماری مفادات کے لیے وفادار ہوتا ہے۔

مسائل کو ہموار کرنے کی خاطر جارحیت کو ختم کرنا چاہیے،  افغان مجاہد عوام کی مرضی کے مطابق اسلامی نظام رائج کیا جائے، جس کے لیے گذشتہ چالیس سال سے لاکھوں افراد نے قربانیاں پیش کیں۔

امارت اسلامیہ ماضی کی طرح ایک بارپھر افغانستان کے مسائل میں ملوث تمام جہتوں سے چاہتی ہے کہ افغان عوام کیساتھ جارحیت کو ختم کرنے  اور خودمختاری کے حصول کی خاطر اپنے انسانی اور اسلامی ذمہ داری کو ادا کریں۔

نیز غاصبوں کو بھی بتاتی ہے  کہ افغان عوام کے مطالبات کو تسلیم کریں، مزید زور آزمائی سے دستبردار ہوجائے، اگر طاقت سے مسائل حل ہوتے، تو گذشتہ سولہ سالوں کے دوران حل کیے جاتے، یہ ایک ثابت شدہ تاریخی حقیقت ہے کہ جب بھی افغان مجاہد عوام کی مقدس سرزمین کے ایک حصے میں کچھ وقت کے لیے استعمار اور ظالم ٹہر چکا ہو، تو اس مدت میں عوام کو شہید، انہیں عقوبت خانوں میں ڈالے ہیں، ان کے گاؤں اور گھروں کو ملیامٹ کیے ہیں، مگر ان کے عزم کو  توڑ سکا اور  نہ ہی انہیں آزادی اور خودمختاری کی راہ سے منحرف کیا ہے۔

اگر عالمی برادری اور نیز استعمار حقیقی طور پر مسئلے کا حل چاہتا ہے، تو بنیادی راہ یہ ہے کہ قبضے کو ختم کردے اور اس حوالے سے امارت اسلامیہ سے بات چیت کی میز کا رخ کریں، اس کے علاوہ نمائشی اجلاسوں کی کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی بےبنیاد پروپیگنڈے مسئلے کا حل ہے۔