میدان وردک میں ہسپتال پر حملہ کھلی دہشت گردی ہے..؟!!

استعمار اور کٹھ پتلی فوجوں کے مشترکہ اور وحشت ناک رات کی کاروائیوں میں نہتے ہموطنوں نے کافی مصائب جھیلے ہیں۔07/اکتوبر 2001ء سے لیکر آج تک ہزاروں  گھروں میں استعمار  رات کی تاریکی میں گھس چکے ہیں اور وہاں سوئے ہوئے بچوں کو نہایت وحشت سے مار ڈالے ہیں، ماؤں کی جگرگوشے چھین لیے ہیں، […]

استعمار اور کٹھ پتلی فوجوں کے مشترکہ اور وحشت ناک رات کی کاروائیوں میں نہتے ہموطنوں نے کافی مصائب جھیلے ہیں۔07/اکتوبر 2001ء سے لیکر آج تک ہزاروں  گھروں میں استعمار  رات کی تاریکی میں گھس چکے ہیں اور وہاں سوئے ہوئے بچوں کو نہایت وحشت سے مار ڈالے ہیں، ماؤں کی جگرگوشے چھین لیے ہیں، عورتوں کو بیوہ کرلیے ہیں،  والدین کو  رولائے ہیں، بستیوں کو صف ماتم پر بھٹائے ہیں۔

حالیہ دنوں میں استعمار اور اس کے کٹھ پتلیوں نے وحشت کے ایک نئے طرز کا آغازز کیا ہے۔ انہوں نے 14 ماہ قبل فوجی آپریشن اور لڑائی  کے اختتام کا اعلان کیا تھا، لیکن  استعمار نے آج  افغانوں پر تشدد،انہیں تکلیف پہنچانا ، ہرسان کرنا اور خوف میں مبتلا کرنا  اپنی قسمت آزمائی کی جدوجہد شروع کی ہے۔غاصب قوتیں ایسے اعمال سرانجام دینے سے لاچار کابل دوہری  انتطامیہ کے ایماء پر جارحیت کے منظر  نامے  کو تقویت دینا چاہتی ہے۔

مؤثق ترین رپورٹوں کے مطابق 17 / فروری 2016ء کو اندھیری رات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کٹھ پتلی فوجوں نے غاصبوں کے ہمراہ سویڈن رفاہی ادارے کے کلینک پر حملہ کیا، چار بیماروں کو کلینک سے نکال کر باہر میں انہیں خنجروں اور سنگینوں کا وار کرکے نہایت سفاکیت سے شہید کردیے، کلینک کے ڈاکٹروں اور عملہ کی بے عزتی کی، طبی آلات اور دوائیں لوٹ لیے، کلینک کی عمارت کو نقصان پہنچایا۔ قابل یاد آوری ہےکہ کلینک صوبہ میدان وردک کےضلع  جلگہ یا دائی میرداد کے تنگی سیدان کے علاقے میں واقع ہے اور عوام کو طبی خدمات فراہم کرتا ہے، جو کسی صورت میں جنگ کا ہدف بن سکتا اور نہ ہی امارت اسلامیہ سے اس کا کوئی تعلق ہے،بلکہ عوامی خدمت کی خاطر ایک بیرونی رفائی ادارے کی جانب سے تاسیس اور اس کے انتظامی امور چل رہے ہیں۔

20/فروری 2016ء کو یعنی مذکورہ سانحہ کے تین روز بعد کٹھ پتلی فوجوں نے وحشت کے ایک اور منظر نامے کو پیش کردی۔ وہ یہ کہ ایک بارہ سالہ بچہ اپنے کھیت میں کام کررہا ہے،جنہیں مزدور فوجیوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ سانحہ بھی صوبہ میدان وردک ضلع سیدآباد میں پیش آیا،جس کے نتیجے میں علاقے کے مکینوں نے احتجاج کیا اور کابل، قندہار قومی شاہراہ کو کئی گھنٹوں تک بند کردی۔صرف یہ نہیں، بلکہ صوبہ بغلان کے ڈنڈغوری اور ڈنڈشہاب الدین کے علاقوں میں کئی ہفتوں سے کابل انتطامیہ کی جانب سے عوام پر بڑے مظالم اور وحشتوں کا سلسلہ جاری ہے، لیکن انسانی حقوق اور دیگر عالمی ادارے خاموش ہیں، اس بارے میں کچھ نہیں کہتے۔

17 اور 20 / فروری 2016ءصوبہ میدان وردک میں پیش آنے والے بزدلانہ سانحات استعمار اور اس کے کٹھ پتلیوں کے وحشت کی تازہ مثالیں ہیں۔ اسی لیے معصوم بچوں کو نشانہ بنانا، سول ہسپتال پر حملہ آور ہونا، مریضوں اور طبی پرسونل کو قتل کرنا، ہسپتال کے عملے کو ہراسان اور انہیں مار پیٹنا، ڈاکٹروں اور نرسوں کی بےعزتی کرنا وحشت کے علاوہ اور کیا کچھ ہوسکتا ہے….؟!!

حیراکن بات یہ ہے کہ استعمار اور اس کے کاسہ لیس شہری نقصانات اور تشدد سے متعلق ذمہ داری تسلیم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ وہ خود کو امن کے سفید کبوتر سمجھتے ہیں۔ جب دو ہفتہ قبل اقوام متحدہ کی جانب سے شہری نقصانات کی رپورٹ کی شائع ہوئی اور کابل نااہل اور دوہری انتظامیہ کو شہری نقصانات سے متعلق کم اشارہ کردی، تو کٹھ پتلی انتظامیہ آگ بگولا ہوگئی اور یوناما کے فیصلے کی مذمت کی۔

استعمار اور اجنبی کندھوں پر سوار کابل دوہری انتظامیہ کو چاہیے کہ ایک بات سمجھ لے، وہ یہ کہ : افغان عوام اسلامی نظام، آزادی اور استقلال کے علاوہ کسی اور چیز پر  راضی نہیں ہونگے۔ افغانوں کے لیے استعماری قبضے کی خاتمہ اور خودمختاری سب سے اہم ہے۔ یہی امن بھی، صلح بھی اور خوش بختی  بھی ہے۔ واللہ الموفق