نیوزی لینڈ کا قابل ستائش اقدام

آج کی بات نیویارک ٹائمز نے خبر شائع کی ہے کہ کابل حکومت کے حکام نے غیر ملکی افواج سے اپیل کی ہے کہ وہ دوحہ معاہدے کے برخلاف اپنی فوجی اور مالی مدد جاری رکھنے کے لئے کم سے کم دو سال تک اپنی فوجیں افغانستان میں برقرار رکھیں۔ ادھر نیوزی لینڈ نے اعلان […]

آج کی بات

نیویارک ٹائمز نے خبر شائع کی ہے کہ کابل حکومت کے حکام نے غیر ملکی افواج سے اپیل کی ہے کہ وہ دوحہ معاہدے کے برخلاف اپنی فوجی اور مالی مدد جاری رکھنے کے لئے کم سے کم دو سال تک اپنی فوجیں افغانستان میں برقرار رکھیں۔
ادھر نیوزی لینڈ نے اعلان کیا ہے کہ وہ دوحہ معاہدے کے تحت مئی تک اپنی تمام فوجیوں کو افغانستان سے واپس بلائے گا۔
نیوزی لینڈ کے وزیر اعظم جیکنڈا آرڈر نے کہا ہے کہ افغانستان میں 20 سال کی موجودگی کے بعد نیوزی لینڈ نے افغانستان سے اپنی باقی فوجیں واپس بلانے اور وہاں اپنی فوجی موجودگی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اب امن کا وقت آگیا ہے، غیر ملکی فوجیوں کے قیام کے لئے کوئی ضرورت نہیں ہے۔
نیوزی لینڈ کا افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانے اور اس کے بجائے امن و استحکام کی توقع کرنا واقعتا ایک انسان دوست اقدام ہے اور افغان عوام کی آزادی کے احترام میں ان کی واپسی ایک مثبت قدم ہے۔
امید کی جا رہی ہے کہ امریکہ کی زیرقیادت آئے ہوئے تمام قابض ممالک نیوزی لینڈ کے نقش قدم پر چلیں گے، افغانستان پر ناجائز قبضہ ختم کریں گے، تاکہ افغانستان میں خونریزی کے بجائے امن و استحکام قائم ہوسکے اور افغان عوام حق آزادی سے مزید محروم نہیں رہیں گے۔
ویسے بھی پچھلے 19 سالوں میں ثابت ہو گیا ہے کہ طاقت کا استعمال اور فوجی حکمت عملیوں اور جرنیلوں کو تبدیل کرکے افغانستان کا مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا۔
لہذا ان طویل تجربات کے بعد عقل مندی اور منطق کا تقاضا یہ ہے کہ اس جنگ کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے مزید حقیقی کوششیں کی جانی چاہئیں اور جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے کیے جائیں، امارت اسلامیہ اپنی جانب سے اس تنازع کے پرامن اور سیاسی حل کے لئے پرعزم ہے، لیکن فریق مخالف کابل حکومت کے کٹھ پتلی حکام غیر منصفانہ طور پر غیرملکیوں سے جنگ اور جارحیت کو دوام بخشنے کا مطالبہ کررہے ہیں، اور بڑی بے شرمی سے اپنی غلامانہ سیاہ تاریخ کو مزید سیاہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
نیوزی لینڈ کا فیصلہ امن کی طرف ایک مثبت قدم اور دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کی طرف ایک اچھا قدم ہے۔ امارت اسلامیہ نے دنیا خاص طور پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو لکھے گئے ایک خط میں گزشتہ روز واضح کیا ہے کہ امارت اسلامیہ کسی کے داخلی امور میں مداخلت کرتی ہے اور نہ ہی کسی کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے، اور نہ کسی اور کو اجازت دیتی ہے کہ وہ ہمارے ملک کے معاملات میں مداخلت کریں، اپنی سرزمین اور ملت کا دفاع کرنا ہمارا جائز انسانی حق ہے۔
ہمارے ملک اور عوام کو ایک مسلط شدہ جنگ کا سامنا ہے، اس جنگ کا خاتمہ سب کی ذمہ داری اور مفاد میں ہے اور اس کے خاتمہ کے لئے دوحہ معاہدے کا مکمل نفاذ سب سے بہترین ذریعہ ہے۔
امارت اسلامیہ اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہے، دیگر فریق بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کریں، کٹھ پتلی حکومت کے غیر سنجیدہ حکام کے ان ناجائز ، غیر انسانی اور ملک دشمن مطالبات پر کان نہیں دھرنا چاہئے جو در حقیقت مستقل، بے مقصد اور تباہ کن جنگ کی طرف غیر ملکیوں اور افغانیوں کو دھکیلنا ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔