نیٹو نے افغانستان میں کیا حاصل کیا؟

آج کی بات نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے کہا ہے: “اگر ہم افغانستان میں اپنی افواج کو برقرار رکھیں گے تو ہمیں جنگ کے جانی اور مالی نقصان کے لئے تیار رہنا چاہئے، اور اگر ہم افغانستان سے واپس جائیں گے تو گزشتہ دو عشروں کی کامیابیوں سے محروم ہوجائیں گے۔” سوال […]

آج کی بات

نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے کہا ہے: “اگر ہم افغانستان میں اپنی افواج کو برقرار رکھیں گے تو ہمیں جنگ کے جانی اور مالی نقصان کے لئے تیار رہنا چاہئے، اور اگر ہم افغانستان سے واپس جائیں گے تو گزشتہ دو عشروں کی کامیابیوں سے محروم ہوجائیں گے۔” سوال یہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران نیٹو نے افغانستان میں کیا حاصل کیا ہے جس کو کھونے سے اسے نقصان کا سامنا ہوسکتا ہے؟
7 اکتوبر 2001 کو امریکی قیادت میں نیٹو نے افغانستان پر حملہ کیا اسی دن سے افغان عوام خوشیوں سے محروم ہوگئے ہیں، کیونکہ نیٹو نے افغان عوام کی منشا کے مطابق اسلامی اور قومی حکومت کو بی 52 طیاروں، کروز اور کلسٹر بموں اور خطرناک ہتھیاروں کے بل بوتے پر بظاہر شہروں سے ختم کر دیا، اور افغان عوام پر ٹیکنوکریٹوں ، جرائم پیشہ عناصر اور کمیونسٹوں کی مخلوط، ظالمانہ اور بدعنوان حکومت مسلط کر دی۔
نیٹو کی جانب سے مسلط حکومت میں افغان عوام کو ایسے اخلاقی اور مادی نقصانات کا سامنا ہوا جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، مثلا ہمارے مقدس مقامات اور شعائر کی توہین کی گئی، افغان عوام کی ساکھ اور عزت کو مجروح کیا گیا، ہماری آزادی کو غصب کیا گیا، ہماری علاقائی سالمیت کو شدید خطرہ لاحق ہوا، ہمارے قومی ہیروز کا مذاق اڑایا گیا، ہماری شناخت اور ثقافت کو مسخ کیا گیا، افغانستان کرپشن کے لحاظ سے دنیا میں پہلے نمبر پر آیا، ہمارے لاکھوں شہری شہید ، زخمی اور قید ہوئے۔ مختصر یہ کہ نیٹو کی قابض افواج اور کٹھ پتلی حکومت کے حواریوں نے افغانستان اور افغان عوام کی تمام روحانی اور مادی اقدار کو مسخ کر کے اپنی مرضی کے مطابق نظام مسلط کر دیا۔
نیٹو اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان اور افغان عوام کو مذکورہ بالا نقصان پہنچایا ہے حالانکہ کسی افغان نے امریکہ یا نیٹو کے کسی رکن ملک پر حملہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان کے مفادات کو افغانوں سے خطرہ لاحق ہے ، نیٹو اور امریکہ نے اپنے استعماری اہداف کے حصول کے لئے ہمارے ملک پر ناجائز حملہ کیا جس کے نتیجے میں افغان عوام کو بہت سی پریشانیوں، مصائب اور مشکلات کا سامنا ہوا اور اس جنگ کے نقصانات اب تک سہہ رہے ہیں۔
افغانوں کو نیٹو کی موجودگی سے کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ اس کی جارحیت سے مختلف برائیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ معلوم نہیں نیٹو کو افغانستان میں کن کامیابیوں پر فخر ہے؟ کیونکہ نیٹو نے افغانستان میں قتل و غارت گری، گرفتاریوں اور تباہی کے سوا اور کچھ نہیں کیا۔
افغانستان سے انخلا کے بعد نیٹو کے خدشات مکمل طور پر بے بنیاد ہیں ، کیوں کہ امارت اسلامیہ نے افغان عوام کی حقیقی نمائندہ قوت کے طور پر بار بار کہا ہے کہ ہم اپنے عوام کی منشا کے مطابق اپنے ملک میں ایک جامع اسلامی نظام چاہتے ہیں۔ ہم نے کسی ملک پر حملہ نہیں کیا ہے، ہم نے کسی کو دھمکی نہیں دی ہے اور نہ ہی ہم کسی اور کو اپنی مرضی مسلط کرنے یا ہمارے ملک میں مداخلت کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
امارت اسلامیہ اور امریکہ کے درمیان دوحہ معاہدے میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ تمام قابض افواج کا افغانستان سے مکمل انخلا ہوگا، اور امارت اسلامیہ کسی کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
امارت اسلامیہ دوحہ معاہدے کے لئے پرعزم ہے اور شیڈول کے مطابق اس معاہدے پر عمل درآمد کے لئے کوشاں ہے، فریق مخالف کو بھی دوحہ معاہدے پر عمل درآمد میں غداری نہیں کرنی چاہئے۔ کیونکہ یہ معاہدہ افغان عوام، امریکہ اور اس کے اتحادیوں سب کے مفاد میں ہے۔
نیٹو کو اب اپنے عوام اور دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے، افغانستان پر قبضے کو طول دینے کے لئے کسی بہانے کی تلاش نہیں کرنی چاہئے اور قیام امن کے لئے یہ سنہری موقع ضائع نہیں کرنا چاہئے، کیوں کہ پچھلے 20 سالوں میں اس نے افغانستان میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کی ہے، آئندہ بھی کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔