وطن عزیز کا اہم  مسئلہ

بدقسمتی سے کہنا پڑتا ہے کہ اب تک ملک کے مسئلے کی حل کی خاطر استعمار اور اس کے حواریوں کی جانب سے  حقیقت ثابت نہ ہوسکا، بلکہ صلح کے مقدس نام سے ناجائز فائدہ اٹھارہا ہے۔ تقریبا گذشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے نام جھوٹی لڑائی کے تحت افغان عوام کے جائز حقوق […]

بدقسمتی سے کہنا پڑتا ہے کہ اب تک ملک کے مسئلے کی حل کی خاطر استعمار اور اس کے حواریوں کی جانب سے  حقیقت ثابت نہ ہوسکا، بلکہ صلح کے مقدس نام سے ناجائز فائدہ اٹھارہا ہے۔ تقریبا گذشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے نام جھوٹی لڑائی کے تحت افغان عوام کے جائز حقوق کو غصب کیے ہوئے ہیں، دیہاتوں پر بمباریاں اور گھروں پر رات کے حملے کرتے  رہتے ہیں۔ دنیا کے موجودہ انسانی معیار کے برعکس روزانہ افغان عوام کے مختلف حقوق پر تجاوز ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگ کو جاری اور جواز بخشنے کی خاطر ورغلانے والے دلائل پیش کرتے رہتے ہیں۔  امارت اسلامیہ نے اپنے  اصولی مؤقف کی رو سے ملک کے تنازعے کی بنیادی حل کے لیے بار بار کہا ہے کہ موجودہ جنگ کے اسباب کو ختم کروانے چاہیے۔

اگر استعمار اور اس کے حواری حقیقی طور پر افغان تنازعہ کو ختم کرنا چاہتا ہے، تو بنیادی نکات کے بارے میں اپنے نظریات کو پیش کریں، تاکہ سب سمجھ جائیں کہ مسئلے کی بنیادی حل کے لیے ارادہ اور منصوبہ موجود ہے۔

مگر بدقسمتی سے گذشتہ ڈیڑھ دہائی عرصہ سے دیگر کیساتھ ساتھ افغانستان میں جنگ کا ایک سبب یہ بھی ہے، کہ استعمار اور اس کے لیے بیرونی اور داخلی حامی افغان مسئلے کیساتھ حکمت عملی کا رویہ اپنا رہا ہے، حقائق کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی مسئلے کے حقیقی حل کی تلاش میں ہے،  بلکہ جعلی نعروں اور پالیسی سے جنگ کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔ کبھی اربکی کے نام اور کبھی مقامی فورسز کے نام سے  ملیشا ایجاد کرتی ہے۔  جان بوجھ کر افغانستان میں 20 مسلح گروہوں کو ہوا دی جارہی ہے  اور داعش نامی فتنہ کا مادی اور پروپیگنڈانہ تعاون کرتا رہتا ہے۔ مگر اس طرح رویے سے افغان مسئلہ حل کرسکی اور نہ ہی اسے حل کرسکے گی، بلکہ اسے مزید پیچیدہ تر  کریگی۔

البتہ اگر استعمار اور اس کے حواری افغان مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے، تو بہتر یہ ہے کہ  افغان مجاہد عوام کے ان جائز مطالبات کو تسلیم کریں،جن کے لیے مجاہد عوام نے چالیس سال تک قربانی دی اور تاحال قربانیاں دی رہی ہیں۔