وقت سے پہلے ریڈ لائن کا کیا مطلب ہے؟

آج کی بات کابل انتظامیہ کی شاخ ایوان صدر جو کچھ خودغرض اور غیر سنجیدہ لوگوں کے کنٹرول میں ہے، اس میں شہرت رکھتا ہے کہ وہ اپنے تمام مخالفین کے مطالبات اور ترجیحات کے خلاف روز روز نئی سرخ لکیروں کا اعلان کرتا ہے۔ حال ہی میں ایک اور شاخ نام نہاد اعلی مفاہمت […]

آج کی بات

کابل انتظامیہ کی شاخ ایوان صدر جو کچھ خودغرض اور غیر سنجیدہ لوگوں کے کنٹرول میں ہے، اس میں شہرت رکھتا ہے کہ وہ اپنے تمام مخالفین کے مطالبات اور ترجیحات کے خلاف روز روز نئی سرخ لکیروں کا اعلان کرتا ہے۔
حال ہی میں ایک اور شاخ نام نہاد اعلی مفاہمت کی کونسل کے نائب نے بھی ایوان صدر کے حکام کی طرح وقت سے پہلے سرخ لکیروں کا اعلان کیا۔
ایک ایسے وقت میں کہ جب طریقہ کار پر اتفاق رائے کے بعد مذاکرات کرنے والی ٹیموں نے ایجنڈوں پر مشاورت کے لئے تھوڑا سا وقفہ کیا۔ کابل انتظامیہ کی مفاہمتی کونسل کے نائب سربراہ اسد اللہ سعادتی نے وقت سے پہلے ایجنڈا کے بارے میں سرخ لکیر کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں جمہوری نظام کی بقا کی وہ اہمیت ہے جس کے مقابلے میں ہمارے لئے کوئی متبادل نظام قابل قبول نہیں ہے۔
اسد اللہ سعادتی نے گذشتہ روز کابل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے اب تک اپنے پسندیدہ “اسلامی نظام” کی بات کی ہے لیکن اس کی وضاحت نہیں کی ہے۔ ان کے بقول جمہوری نظام کے علاوہ ان کے لئے کوئی نظام قابل قبول نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی دوسرا متبادل ہے۔
سعادتی کے نزدیک جنگ بندی اور جمہوری نظام کی بقا دونوں ان کی مذاکراتی ٹیم کے ایجنڈے میں شامل ہیں جنہیں وہ سرخ لکیریں قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شاید اسی لئے افغانستان میں امن کا حصول مشکل کام ہے۔
وقت سے پہلے سرخ لکیروں کا اعلان نہ صرف مسئلے کو حل کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوسکتا بلکہ مذاکرات کے عمل کو مزید پیچیدہ کرنے کا باعث بن سکتا ہے جس سے قوم میں مایوسی پھیل جاتی ہے۔
مذاکرات کی ٹیمیں تشکیل دی گئیں ہیں تاکہ افہام و تفہیم اور بحث و مباحثہ کے ذریعے وہ وطن عزیز کے تمام پیچیدہ مسائل کو حل کریں، غیر ملکیوں کے بل بوتے پر طاقت کے استعمال ، میڈیا پروپیگنڈہ یا بازاری سرخ لکیروں کے اعلانات افغانستان کے مسائل حل کر سکتے تھے تو یہ کام کابل انتظامیہ بیس سال سے انجام دہی ہے مگر فائدہ کچھ نہیں ہوا۔
یہ بات اہم ہے کہ مذاکرات کے ذریعے افغانستان کے مظلوم مسلمان عوام کے اس طویل تنازع کو حل کرنے کی کوشش کی جائے، کابل حکام کے ذاتی مفادات کو تحفظ فراہم کرنا ضروری نہیں ہے۔
جمہوری نظام اگر وہ اس کو کہتے ہیں جو ہمارے ملک پر بیس سالوں سے مسلط ہے، اور ہر سال کرپشن میں بین الاقوامی سطح پر ایوارڈ جیتتا ہے تو یہ ناکارہ نظام مذاکرات کو روکنے کے لئے سرخ لکیر کے طور پر پیش کرنا اہمیت کا حامل نہیں ہے۔
جنگ بندی امارت اسلامیہ کے لئے سب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ جنگ سے سب سے زیادہ مجاہدین متاثر ہیں لیکن ہمارے لئے وہ جنگ بندی اہم ہے جس کے نتیجہ میں وطن عزیز پر ناجائز قبضہ اور اس کے مضر اثرات کا خاتمہ ممکن ہو سکے، اور ملک میں مستقل جنگ بندی ہو۔
یہ نہ ہو کہ ایک عارضی جنگ بندی ہوجائے، مجاہدین پہاڑوں میں رہیں اور کابل حکام کو کھل کر کرپشن کا موقع ملے، اور امن کے خلاف سرخ لکیریں مزید وسیع کردیں۔
حقیقت یہ ہے کہ نہ تو موجودہ جمہوری نظام کی موجودگی میں اور نہ ہی عارضی جنگ بندی سے افغانستان کا طویل تنازع ختم ہو سکتا ہے، بلکہ اس کو مزید پیچیدہ اور طویل بنا سکتا ہے۔
امارت اسلامیہ نے صرف یہ کہا ہے کہ وہ ملک کی آزادی اور آزاد و مختار ملک میں اسلامی نظام کا مکمل نفاذ چاہتی ہے۔
جو خود کو مسلمان کہلاتے ہیں اور اسلامی نظام کی حقیقت کو نہیں جانتے وہ وضاحت مانگ رہے ہیں، یہ ان کی اپنی کمزوری ہے، یہ نہیں کہ اسلامی نظام کابل کے موجودہ کرپٹ جمہوری نظام کا متبادل نہیں ہو سکتا۔
بہتر یہ ہے کہ مذاکراتی عمل کو مذاکرات کرنے والی ٹیموں پر چھوڑ دیا جائے، میڈیا پر ریڈ لائنز مذاکرات کی پیشرفت میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔