پانچ ارب ڈالر!

عابد بیسویں صدی میں وارسا معاہدے نے افغانستان کی ترقی کا خواب چکنا چور کر دیا اور وہ 21ویں صدی تک زخم چاٹ رہا تھا۔ ابھی تک چین اور سکون کا موقع نہیں ملا تھا کہ نیٹو نے آسمان سے آگ برسانا شروع کر دی۔ تمام اتحادیوں نے مل کر بھرپور طاقت اور جدید ٹیکنالوجی […]

عابد

بیسویں صدی میں وارسا معاہدے نے افغانستان کی ترقی کا خواب چکنا چور کر دیا اور وہ 21ویں صدی تک زخم چاٹ رہا تھا۔ ابھی تک چین اور سکون کا موقع نہیں ملا تھا کہ نیٹو نے آسمان سے آگ برسانا شروع کر دی۔ تمام اتحادیوں نے مل کر بھرپور طاقت اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ یلغار کر دی، جس کا مقابلہ کرنا اور شکست دینا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ جب پہلی بار دنیا دو حصوں میں تقسیم تھی۔ سوویت یونین نے افغانستان میں اپنی مدمقابل قوتوں کو نیچا دکھانے کے لیے نہتے شہریوں پر ہر قسم کے مظالم ڈھائے، جب کہ مدمقابل دنیا کی دوسری قوتوں نے افغان عوام کی مزاحمت کو خودمختاری کے حصول کے لیے مقدس جہاد قرار دیا اور کھل کر مجاہدین کی حمایت کی ۔

البتہ اب امریکا دنیا بھر میں سپرپاور کے نام پر دندناتا پھر رہا ہے۔ وہ دنیا پر صرف اپنی بالادستی قائم کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ افغان جنگ سے لطف اندوز ہو رہا ہے، لیکن قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے۔ اس لیے بہادر افغان عوام کی مزاحمت دہشت گردی ہے اور مجاہدین پوری دنیاکے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ امریکا خطے میں عسکری اثر و رسوخ برقرار رکھنے اور روس کی دوبارہ سے ممکنہ طور پر اُبھرتی ہوئی فوجی قوت کو دبانے کے لیے افغان جنگ کو طول دے رہا ہے۔ کیوں کہ جنگ جتنی طویل ہوگی، اس کا اتنا ہی فائدہ ہوگا۔ اس آگ کو شعلہ بار رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ آئندہ چند برس کے لیے ایندھن تیار کیا جائے۔ اس لیے امریکا اور اس کے اتحادی بہت کوششوں کے بعد ایک رائے تک پہنچ سکے۔ اس کا اعلان کرنے کے سلسلے میں وارسا کا اجلاس طلب کیا اور نام نہاد صدر اشرف غنی کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دے کر پانچ ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا۔ یہ امداد افغانستان کی تعمیرنو کے لیے نہیں، بلکہ صرف اور صرف فوجی اخراجات کے لیے ہے۔

اب ہر کسی کو یہ یقین ہو چلا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان کو امن کا گہوارہ بنتے نہیں دیکھ سکتے۔ وہ یہاں جنگ کو طول دینے کے اسباب کی طرف لپک رہے ہیں۔ یہاں فوج کو برقرا رکھنے کے بارے میں ریمارکس سے بھی اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے۔ اب اگر اس تناظر سے اس معاملے کا جائزہ لیں کہ افغانی کہتے ہیں: غیرملکیوں کو واقعی ہماری پریشانیوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس حقیقت سے پوری دنیا آگاہ ہے۔ وارسا اجلاس کے بعد سلامتی کونسل میں امریکی مشیر اور نیٹو کے جنرل سیکرٹری نے ملاقات کے دوران خفیہ رازوں پر تبادلہ خیال کیا۔ ایک نے دوسرے سے کہا: عجیب بات ہے کہ ہم نے افغانستان پر یلغار کی حمایت کے لیے افغانوں کو دو باتوں پر قائل کر کے اپنے ساتھ رکھا ہے۔ ایک دہشت گردی اور دوسرا پاکستان کی ممکنہ یلغار۔ دہشت گردی کی تعریف خود اُنہیں بھی معلوم نہیں ہے اور پاکستان کی یلغار کے بارے میں لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔

اگر اب ان حالات کے ہر پہلو کا بغور جائزہ لیا جائے کہ افغانستان میں امریکی موجودگی کس لیے ہے؟ نیٹوکی مشروط امداد کا مطلب کیا ہے؟ کٹھ پتلی حکمرانوں کے اخلاص اور افغان سرزمین کے دفاع کے لیے جدوجہد کا محور کیا ہے؟  افغان حکومت میں شامل اعلی حکام کے مفادات غیرملکیوں کی موجودگی سے محفوظ ہیں۔ کیوں کہ ان عناصرنے اپنا گھر اور سرمایہ بیرون ملک منتقل کر دیا ہے، تاکہ کوئی ان کے جرائم کا حساب نہ لے سکے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ افغانستان کے معاملات میں کون مداخلت کر رہے ہیں اور ان کے مفادات کیا ہیں؟ جو لوگ استعماری قوتوں کے خلاف برسرپیکار مجاہدین کی مزاحمت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور کٹھ پتلی حکومت کو قانونی قرار دینے کے جواز تلاش کرتے ہیں، ایسے لوگ مذکورہ سوال کے جواب ڈھونڈیں اور وارسا اجلاس کے پانچ ارب ڈالر کی امداد سے فائدہ اٹھائیں۔