پراسرار ہلاکتوں کے پیچھے کون ہیں؟

آج کی بات حال ہی میں کابل اور دیگر شہروں میں پراسرار ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ماضی میں اگر افغانستان میں جو کچھ ہوتا تھا تو اس کی وجہ اور ذمہ دار معلوم ہوتا تھا، حالیہ مہینوں میں ان واقعات میں اچانک اضافہ ہوا ہے جن کی وجوہات معلوم ہیں اور ان ہی ان […]

آج کی بات

حال ہی میں کابل اور دیگر شہروں میں پراسرار ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ماضی میں اگر افغانستان میں جو کچھ ہوتا تھا تو اس کی وجہ اور ذمہ دار معلوم ہوتا تھا، حالیہ مہینوں میں ان واقعات میں اچانک اضافہ ہوا ہے جن کی وجوہات معلوم ہیں اور ان ہی ان کے ملزمان کا پتہ لگتا ہے۔
مثال کے طور پر گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں کابل ، قندھار اور غزنی میں متعدد صحافی مارے جا چکے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ روز کابل میں انتخابات کی نگرانی کرنے والے ایک ادارے کے چیف ایگزیکٹو کو پراسرار طور پر مارا گیا۔ ایوان صدر کے حکام جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ان ہلاکتوں کے اصل مجرم ہیں، ہر حملے کے بعد بلا تحقیق امارت اسلامیہ پر الزام عائد کرتے ہیں، لیکن ایوان صدر کے حکام کا یہ الزام بے بنیاد ہے کیونکہ امارت اسلامیہ کبھی بھی بے گناہ لوگوں اور اداروں پر حملہ نہیں کرتی ہے۔ گزشتہ 19 سالوں کی جدوجہد میں کبھی یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ امارت اسلامیہ نے کسی صحافی کو مارا ہے، لہذا اب یہ بات کس طرح عقل قبول کرے گی کہ ایک مہینے میں امارت اسلامیہ کی پالیسی اتنی بدل گئی ہے کہ صحافیوں اور دیگر غیر سرکاری کارکنوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ ہمارا ملک فی الحال ایک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے۔ دوحہ معاہدے کے تحت آئندہ سال افغانستان سے تمام قابض افواج کا انخلا مکمل ہوجائے گا، نیز بین الافغان مذاکرات بھی شروع ہوچکے ہیں، اور افغانستان ایک نئی اور بنیادی تبدیلی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ایوان صدر کے حکام جانتے ہیں کہ تبدیلی کے جھٹکے اتنے شدید ہیں کہ ان کی ناجائز حکومت کے ستون کو ہلا کر رکھ سکتے ہیں، اور جعلی انتخابات کے ذریعے حاصل کرنے والی حکومت کا تختہ قبل از وقت الٹ سکتا ہے، اس لئے ایوان صدر کے حکام نے اپنی مدت کو پوری کرنے کے لئے تمام تر کوششیں شروع کردی ہیں۔
ایوان صدر کے حکام نے اپنے ناجائز اقتدار کو دوام دینے کے لئے مختلف طریقوں سے کوششیں شروع کردی ہیں۔ ایک طرف امن اور مذاکرات کے عمل میں خلل ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسری طرف آئندہ جنگ کی تیاری کے لئے مختلف ممالک سے اسلحہ خریدنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ اسی طرح شہروں میں قتل و غارت گری اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ تیز کر دیا ہے تاکہ دنیا کو یہ دکھایا جاسکے کہ افغانستان کی صورتحال قابو سے باہر ہو رہی ہے اور غیر ملکی افواج کو افغانستان سے انخلا نہیں کرنا چاہئے۔
اس مقصد کے حصول کے لئے ایوان صدر کے حکام نے براہ راست اور بالواسطہ پراسرار ہلاکتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ وہ ان اہداف پر حملے کرتے ہیں جو انتہائی حساس ہیں اور ان میں جذباتی اور پروپیگنڈا کے مضمرات بھی شامل ہوتے ہیں۔ کابل یونیورسٹی پر حملہ ، زچگی کے ایک اسپتال پر حملہ اور متعدد مشہور صحافیوں کو مارنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
افغانستان کے شہروں خصوصا کابل میں پراسرار ہلاکتوں کا یہ سلسلہ معمولی اور غیر اہم نہیں لینا چاہئے۔ ان واقعات کی مکمل تفتیش کی جانی چاہئے تاکہ ملزمان کو قوم اور دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے، امارت اسلامیہ نے ہمیشہ ان ہلاکتوں کی مذمت کی ہے اور ملزمان کو تلاش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔