چور حکام کی کھلم کھلا چوری

آج کی بات   جارحیت کے بل بوتے پر مسلط شدہ حکومت کی بدولت افغانستان نے دو بار عالمی ریکارڈ قائم کیا، ایک بار 2003 میں ملکہ حسن یعنی بیوٹی کوئین کے نام پر فحاشی کا پہلا عالمی اعزاز دیا گیا، جب منیلا میں ایک نام نہاد افغان نژاد غیر ملکی خاتون کو ملکہ حسن […]

آج کی بات

 

جارحیت کے بل بوتے پر مسلط شدہ حکومت کی بدولت افغانستان نے دو بار عالمی ریکارڈ قائم کیا، ایک بار 2003 میں ملکہ حسن یعنی بیوٹی کوئین کے نام پر فحاشی کا پہلا عالمی اعزاز دیا گیا، جب منیلا میں ایک نام نہاد افغان نژاد غیر ملکی خاتون کو ملکہ حسن قرار دیا گیا۔

دوسری بار اس نے 2016 میں بدعنوانی اور غبن میں پہلی پوزیشن حاصل کی، جب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ میں افغانستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا جس کے حکمرانوں نے دنیا میں سب سے زیادہ کرپشن، رشوت ستانی، چوری اور لوٹ مار کی ہے۔

تازہ ترین خبر یہ ہے کہ کابل انتظامیہ کے حکام نے ہر قسم کرپشن کے علاوہ اب دن دیہاڑے چوری کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، وی آئی پیز (اعلی حکام) کی جانب سے نامعلوم جہازوں کے ذریعے نقد رقم اور قیمتی سامان کابل ایئر پورٹ سے باہر ممالک منتقل کیا جاتا ہے۔

کابل کے انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر گمنام جہازوں کی آمد و رفت اور ان میں نقد رقم اور قیمتی سامان کی منتقلی کی افواہوں کے بعد امریکی ادارے سیگار نے اپنی حالیہ رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی ہے اور حکام کی چوری کو مزید بے نقاب کیا ہے۔

سیگار نے کہا کہ وی آئی پیز یعنی اعلی حکام جو ہوائی اڈے پر تلاشی سے مستثنیٰ ہیں لیکن نقد رقم اور دیگر قیمتی سامان کی تلاش مشینوں سے کی جاتی ہے، تاہم انہیں مشینوں سے بھی تلاشی کے بغیر اس لئے موقع ملا ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر مشینیں بند کردی ہیں، اور انٹرنیٹ سے ان کا تعلق منقطع ہوگیا ہے۔

(جیسا کہ کچھ عرصہ قبل جب کابل بینک کی بجلی کی فراہمی معطل اور نگرانی کے کیمرے منقطع ہوگئے تھے) اس طرح اعلی حکام یا ان کے متعلقہ افراد بغیر کسی تلاش کے ٹرمینل پہنچ جاتے ہیں اور پھر وہ براہ راست جہاز میں سوار ہوتے ہیں جہاں نقد رقم (ڈالر ، افغانی، دیگر غیر ملکی سکے، سونا اور دیگر قیمتی سامان) اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔

سیگار کے مطابق رواں سال کے دوران ساڑھے چار ارب ڈالر سے زائد رقم ملک سے چوری اور اسمگلنگ ہوچکی ہے۔

چوری کی ان واردات میں اس وقت اضافہ ہوا جب حکام کو یہ احساس ہوا کہ ان کے خاتمے کا وقت تیزی سے قریب آرہا ہے، انہیں امن یا طاقت کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا جائے گا، انہیں عوام کے احتساب کا سامنا کرنا پڑے گا، انہوں نے ہر قسم کرپشن کے بعد اب ملکی خزانہ کو لوٹنے کے لئے کھل کر واردات شروع کی ہیں اور دن دیہاڑے قومی خزانے سے نقد رقم اور قیمتی سامان کو چوری کرکے باہر منتقل کیا جارہا ہے۔

اگرچہ یہ سلسلہ نیا نہیں ہے، برسوں قبل سابق جنگجو احمد شاہ مسعود کے بھائی ضیا مسعود نے 52 ملین ڈالر دبئی منتقل کیے تھے۔

کابل حکام کی کرپشن اور لوٹ مار کا اندازہ کووڈ 19 کیس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، اسی طرح موجودہ بجٹ میں دسترخوان کے نام پر 18 قسم کے گوشت اور مزے دار کھانے کے لئے لاکھوں ڈالر سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

قومی خریداری کے ذریعے معاہدوں کا حصول، وزارت خزانہ کے ساتھ موجودہ تنازعات اور اس وزارت سے محصول کے ذرائع کو ہٹانا اور ایوان صدر کے اختیار میں دینا یہ سب ایسے ثبوت ہیں کہ وہ قومی خزانے کو لوٹنے کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔

حالانکہ کابل حکام خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان میں غربت اتنی زیادہ ہے کہ اب افغانستان کی نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے، یعنی قوم کے پاس دو وقت کی روٹی کے لئے پیسے نہیں ہیں۔

لیکن یہی حکومت امن عمل میں بھی رکاوٹیں کھڑی کررہی ہے، دن رات بمباری کررہی ہے، بڑے ہتھیاروں سے انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے، ان پر چھاپے مارے جاتے ہیں اور قومی اثاثوں کو اتنی بے دردی سے لوٹا جارہا ہے کہ کرپشن کے علاوہ اب فضائی راستوں سے بھی نقدم رقم اور قیمتی چیزوں کو ملک سے باہر منتقل کیا جارہا ہے۔

اگر غریب عوام فی الحال ان چوروں کو روکنے سے قاصر ہیں تو جو حکام جمہوریت کے اندر یا باہر موجود ہیں اور ان چوریوں سے محروم ہیں، انہیں ان کرپٹ حکام کی تکلیف سے بچانے، ان کی کرپشن اور قومی دولت کی لوٹ مار کو روکنے کے لئے آواز اٹھانی چاہئے تاکہ اسلامی نظام کے قیام کے ساتھ ہی ان کا حساب کتاب ممکن ہو سکے۔