چھ دوستوں کی داستان

قاری سعید خبر ہے کابل انتظامیہ نے چھ مجاہدین کو تختہ دار پر لٹکادیا ہے۔ پھانسی کی سزا پانے والے تمام مجاہدین کے نام اور ان کا تعارف اب تک شایع نہیں کیا گیا۔ فیس بک پر پہلے شہید کا نام اور اس کی تصویر دیکھی تو معلوم ہوا کہ اس کا نام عاصم ہے۔ […]

قاری سعید

خبر ہے کابل انتظامیہ نے چھ مجاہدین کو تختہ دار پر لٹکادیا ہے۔ پھانسی کی سزا پانے والے تمام مجاہدین کے نام اور ان کا تعارف اب تک شایع نہیں کیا گیا۔ فیس بک پر پہلے شہید کا نام اور اس کی تصویر دیکھی تو معلوم ہوا کہ اس کا نام عاصم ہے۔ دیگر شہداء کے نام آہستہ آہستہ ظاہر ہو جائیں گے۔ شہید عاصم کو دھوکے سے شہید کیا گیا ہے۔

ہجرت کے چوتھے سال ماہِ صفر میں عضل اور قارہ نامی قبائل کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ کہنے لگے: ’اے اللہ کے رسول! ہم مسلمان ہوچکے ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ کچھ لوگوں کو بھیج دیں، تاکہ ہمارے قبیلے والوں کو قرآن کریم اور دینی احکام سکھائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چھ انتہائی قریبی ساتھیوں کو اس دعوتی کام کے لیے منتخب کیا۔ عاصم بن ثابت، خبیب بن عدی، مرثد بن ابی المرثد، خالدبن الکبیر، زید ابن الدثنہ اور عبداللہ بن طارق رضی اللہ تعالی عنہم۔ یہ چھ افراد مذکورہ وفد کے ساتھ روانہ ہو گئے، انہیں معلوم نہیں  تھا کہ ان کے لیے سازش کا جال بُنا گیا ہے۔ ہذیل نامی قبیلے کے لوگ ان کی تلاش میں 100افراد کا ایک لشکر لائے۔ صحابہ کرام کو اس وقت کفار کی بری نیتوں کا پتہ چل گیا۔ اپنی حفاظت کی کوشش کی، مگر قبیلہ ہذیل کے گھڑسوار پہنچ گئے اور وہ صحابہ ایک پہاڑی پر محصور ہوگئے۔مشرکین نے انہیں زندہ گرفتار کرنے کی کوشش کی، مگر پہاڑی پر چڑھنے میں ناکام رہے۔ مشرکین نے انہیں وعدہ دیا کہ تم پہاڑی سے اتر آؤ، ہم تمہیں کچھ بھی نہیں کہیں گے۔ عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا:  مَیں کافر سے پناہ یا جان کی امان نہیں مانگتا۔ اس کے بعد عاصم بن ثابت نے آسمان کی طرف چہرہ اٹھایا اور بہت درد سے چیخ کر کہا:اے اللہ ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ہماری حالت کی خبر پہنچا دے۔ عاصم کی اس پکار کے بعد مشرکین نے ان پر تیروں کی بارش کردی ۔ تین صحابہ کرام عاصم، مرثد اور خالد بن البکیر تیروں کا نشانہ بن کر شہید ہوگئے۔ بقیہ صحابہ کرام کو مشرکین نے ایک بار پھر پناہ کا وعدہ دیا۔ انہوں نے مشرکین کی بات پر بھروسہ کیا اور پہاڑی سے نیچے اتر آئے۔ جیسے ہی یہ لوگ اترے، مشرکین نے فورا اُن کے ہاتھ باندھ دیے۔ عبداللہ بن طارق رضی اللہ تعالی عنہ نے اس وقت ان سے کہا: یہ تمہارے دھوکے کی پہلی نشانی ہے۔ اب ہم مزید عہد کے پابند نہیں ہیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے ہاتھ کھولے اور تلوار لے کر جنگ کا ارادہ کیا۔ چوں کہ عبداللہ بن طارق تجربہ کار اور تلوار چلانے کے ماہر تھے۔ اس لیے مشرکین کو ان سے تلوار کے ذریعے مقابلہ مہنگا معلوم ہوا۔ اس لیے دور ہی سے پتھر اور تیر مار مار انہیں شہید کر دیا۔

باقی دو صحابہ کرام خبیب بن عدی اور زید الدثنہ کو مکہ لے جایا گیا، تاکہ انہیں مکہ میں ان کفار کے ہاتھوں بیچ دیں، جن کے عزیز و اقارب بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ قبیلہ ہذیل کے مشرکین نے زید کو صفوان بن امیہ کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ صفوان کا والد بدر میں مارا گیا تھا۔ اس کا ارادہ تھا کہ اپنے باپ کے انتقام میں زید کو مار ڈالے۔ صفوان نے زید کو اپنے غلام نسطاس کے حوالے کیا، تاکہ اسے مکہ سے باہر لے جا کر مار دے۔ زید کی سزائے موت کے وقت بہت سے مشرکین مکہ آئے ہوئے تھے، جن میں قریش کا سربراہ ابوسفیان بھی تھا۔ابوسفیان نے زید کو ہتھکڑیوں میں بندھا موت کی سزا کے انتظار میں دیکھا تو قریب جا کر کہا: تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں، سچ بتاؤ کیا تمہیں پسند ہے کہ (نعوذباللہ) تمہاری جگہ یہاں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) قیدی ہوتے اورانہیں سزائے موت دی جائے اور تم بہ حفاظت اپنے گھر واپس لوٹ جاؤ!

حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ نے اللہ کی قسم کھا کر کہا: ’’مَیں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک میں ایک کانٹا بھی چبھے اور مَیں زندہ واپس گھر لوٹ جاؤں۔‘‘

اس کے ساتھ ہی ابوسفیان نے لوگوں کی جانب منہ کرکے کہا: ’’مَیں نے آج  تک کسی کو بھی کسی سے اتنی محبت کرتے نہیں دیکھا، جتنی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اصحاب اُن کے ساتھ کرتے ہیں۔‘‘

اس کے بعد نسطاس کی جانب سے زید الدثنہ کو شہید کر دیا گیا۔ رضی اللہ تعالی عنہ۔ اُن چھ میں سے ایک خبیب بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ زندہ بچے گئے تھے۔ خبیب نے غزوہ بدرمیں حارث بن عامر کے والد کو مارا تھا۔ اس لیے ہذیل کے لوگوں نے انہیں حارث کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ اس نے خبیب کو کچھ عرصہ جیل میں رکھا اور ان کی نگرانی پر اپنی ایک باندی ماریہ کو مقرر کیا۔ ماریہ نے خبیب کی عجیب و غریب کرامات دیکھیں، مگر جب حارث نے خبیب کی پھانسی کا فیصلہ کیا تو خبیب نے بالوں کی صفائی کے لیے استرا منگوایا، تاکہ اللہ کے حضور پاک صاف ہو کر جاؤں۔ جب دوسرے روز انہیں گھر سے نکالا گیا تو حارث کا ارادہ تھا کہ انہیں صلیب دے کر شہید کیا جائے۔ خبیب کے لیے تختے نصب کیے گئے۔ انہوں نے دو رکعت نماز کی اجازت چاہی، مشرکین نے اجازت دے دی۔ اس کے بعد سے اب تک خبیب کی دورکعت پڑھنے کی سنت سزائے موت پانے والے مؤمنوں کے درمیان رائج ہے۔

خبیب نے کہا اگر تم لوگ یہ گمان نہ کرتے کہ مَیں نے موت کے ڈر سے نماز لمبی کر دی تو مَیں اور بھی طویل نماز پڑھتا۔ جب انہیں تختہ دار پر چڑھایا گیا تو خبیب نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا: یاالہی! ہم نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام صحیح طریقے ان قبائل تک پہنچا دیا ہے۔ آپ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ہمارا یہ حال پہنچا دیں کہ ہم پر کیا گزری تھی۔ پھر مشرکین کو بددعا دی: اللهم احصهم عددا، و اقتلهم بددا، و لا تغادر منهم احدا۔

پھر مشرکین کی جانب منہ کرکے تاریخی اشعارکہے:

فلست ابالی حین اقتل مسلما

علی ای جنب کان فی الله مصرعی

و ذلک فی ذات الاله و ان یشاء

یبارک علی اوصال شلو ممزع

و قد خیرونی الکفر و الموت دونه

و قد هملت عینای من غیر مجزع

فلست بمبدء للعدو تخشعا

و لا جزعا، انی الی الله مرجعی

مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اللہ کی راہ میں اسلام کی حالت میں مارا جا رہا ہوں۔ جس جانب بھی جس طریقے سے بھی مارا جاؤں، مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ یہ اللہ کی رضا کے لیے ہے۔ وہ چاہے تو ان ٹکڑے ٹکڑے ہڈیوں میں بھی برکت ڈال دے۔ انہوں نے مجھے کفر اور موت کے درمیان اختیار دیا، میرے لیے موت کو قبول کرنا زیادہ آسان اور پسندیدہ ہے۔ اس لیے اس منظر کو دیکھ کر خوشی سے میری آنکھوں میں آنسو آ رہے ہیں۔ مَیں وہ نہیں ہوں، جو دشمن کے سامنے عاجزی، فریاد اور کمزوری کا اظہار کرے۔ اس لیے بے شک میری واپسی  اللہ تعالی کی جانب ہے۔

اس کے بعد عقبہ بن حارث نے خبیب کو نیزہ مارا، جو آر پار ہو گیا اور بدر کے مقتول مشرکوں کے بیٹوں اور رشتہ داروں نے خبیب کے جسم کو نیزوں سے چھلنی کر ڈالا، مگر خبیب آخری ہچکی تک نیزے کے ہر وار پرالحمد للہ، الحمد للہ کہتے رہے۔ یہ حادثہ مکہ مکرمہ میں پیش آیا، مگر اسی وقت چار سو کلومیٹر دور مدینہ منورہ میں صحابہ کرام کی مجلس میں تشریف فرما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر غم کے آثار نظر اُمڈ آئے۔ آپ علیہ السلام نے صحابہ کرام کو چھ ساتھیوں کی سرگزشت سنائی اور خصوصا حضرت خبیب کی داستان بیان کی۔ ان کے لیے دعا کی  اور فرمایا: خبیب!تم پر سلامتی ہو۔

ہمارے سزائے موت پانے والے چھ مجاہدین بھائیوں نے قرآن کریم کے نظام کی دوبارہ حاکمیت کے لیے اپنی حسین جوانیاں قربان کر دیں۔ انہیں امریکی جارحیت پسندوں یا کابل انتظامیہ سے کوئی ذاتی رنجش یا ناراضی نہیں تھی۔ ان کا واحد جھگڑا اس دین کی خاطر تھا۔ چھ ساتھی خبیب کی طرح مسکراتے ہوئے پھندے تک پہنچے۔ انہوں نے واقعی ان چھ صحابہ کرام کی تاریخ زندہ کر دی۔ آئیے ہم بھی ان کے بارے ویسا ہی کہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا۔ ان کے لیے دعا کریں اور ہر ایک کو کہیں عاصم! پر سلامتی ہو۔