کابل اجنبی انتظامیہ کے ففٹی سربراہ کی فضول باتیں!

پیر کے روز 25/اپریل 2016ء  کابل اجنبی انتظامیہ کے ففٹی سربراہ نے نام نہاد پارلیمنٹ کو اپنے غیر معمولی حرکت  کے استقبال پر ایک پرانا اورمنسوخ خطاب کیا۔ کابل انتظامیہ کے اہم خفیہ ادارے( نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف اینٹلے جنس) کے مرکز پر19/ اپریل 2016ء کو  ہونے والے فدائی حملے پر جناب کا خطاب گردش کررہا […]

پیر کے روز 25/اپریل 2016ء  کابل اجنبی انتظامیہ کے ففٹی سربراہ نے نام نہاد پارلیمنٹ کو اپنے غیر معمولی حرکت  کے استقبال پر ایک پرانا اورمنسوخ خطاب کیا۔ کابل انتظامیہ کے اہم خفیہ ادارے( نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف اینٹلے جنس) کے مرکز پر19/ اپریل 2016ء کو  ہونے والے فدائی حملے پر جناب کا خطاب گردش کررہا تھا۔اگرچہ خطاب سب کو معلوم ہے، جس میں نفسی خواہشات اور فضول باتوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا، جس کا جائزہ لیا جائے، لیکن پھر بھی دو نکات کی جانب اشارہ کرنا بےسود نہیں ہوگا۔

پہلا :  وہ شخص جس نے  پچپن سے ادھیڑ عمر تک اپنی زندگی ملک اور قوم سے دور اجنبی ثقافت اور بیگانہ اعتماد کے آغوش میں بسر کی ہو۔  اجنبی ہاتھوں سے ان کا پرورش اور تربیت ہوا ہو۔ اپنے آپ کو افغان غیور اور مجاہد قوم کا حقیقی نمائندہ سمجھتا ہو اور مجاہدین کو اجنبی مزدور سمجھتے ہیں، جو مہد سے لحد تک عوام ہی کیساتھ رہے۔ عوام کے دکھ و درد میں پلے ہو، عوام کے اقدار اور اعتمادات کے تحفظ  کے لیے شب و روز جانوں اور لہو کی قربانیاں درہے ہوں۔ سب جانتے ہیں کہ گائے سیاہ اور دودھ سفید ہے(یہ پشتو زبان کا ضرب المثل ہے، جو حقیقت کے موقع پر بولا کیا جاتا ہے۔)

دوسرا: خطاب کا دوسرا نکتہ یہ تھا، کہ کابل انتظامیہ آج کے بعد مجاہدین کی قتل، مظلوم اور دست بدستہ قیدیوں کو سولی پر لٹکائینگے، ان کیساتھ تلخ برتاؤ اور برا سلوک کیا جائےگا، تاکہ اس طرح کابل انتظامیہ اور ان کے بیرونی پارٹنرز (استعمار) امن و امان میں رہے۔

یہ بات سب سے مضحکہ خیز ہے، جیساکہ گذشتہ 15 برس کے دوران افغان مجاہد عوام پر اندھی بمباری نہ ہوئی ہو، انہیں عقوبت خانوں میں نہ ڈالے گئے ہو، گھربار چھوڑنے پر مجبور نہ کیے گئے ہو، انکے گھروں پر رات کے وقت چھاپے نہ مارے گئے ہو وغیرہ وغیرہ…

جناب ففٹی سربراہ کا کیا خیال ہے کہ گذشتہ پندرہ سالوں میں ان کے بیرونی پارٹنروں! کے مظالم اور وحشتوں نے افغان مسلمان عوام کے جذبے اور خودمختاری کے طغیانی لہروں کو خاموش کیے اور یا انہیں مزید ابھارے اور سرشار کی ہیں !؟ عقل سلیم اور منطق کا فیصلہ یہ ہے کہ ماضی میں وحشت اور ظلم نے جو نتیجہ دی ہے! مستقبل میں وہی نتیجہ دیگی اور اسے بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ ظلم کا  ردعمل بھی ہوتا ہے۔

افغانستان کے موجودہ گھمبیر حالت کا حل ظلم اور وحشت سے نہیں، بلکہ افغان مجاہد عوام کے مطالبات ماننے اور بنیادی مسائل کو سمجھنے اور اسے حل اوراس پر غور کرنے اور عمل کرنے سے ہوسکتا ہے اور بس۔