کابل انتظامیہ، ٹارگٹ کلنگ اور پروپیگنڈا

آج کی بات کابل انتظامیہ نے ایک طرف علماء کرام ، سیاسی تجزیہ کاروں ، سول سوسائٹی کے کارکنوں اور کابل اور دیگر بڑے شہروں میں بااثر شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور دوسری طرف امارت اسلامیہ کے خلاف پروپیگنڈا بھی تیز کر دیا ہے۔ عوام کی اکثریت یہ سمجھتی […]

آج کی بات
کابل انتظامیہ نے ایک طرف علماء کرام ، سیاسی تجزیہ کاروں ، سول سوسائٹی کے کارکنوں اور کابل اور دیگر بڑے شہروں میں بااثر شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور دوسری طرف امارت اسلامیہ کے خلاف پروپیگنڈا بھی تیز کر دیا ہے۔ عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ مفاہمت کے جاری عمل کے دوران ایوان صدر کا موقف بلا شبہ آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہے۔
ایوان صدر سے دن رات امارت اسلامیہ ، امن اور اسلامی نظام کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور دھمکیاں دی جاتی ہیں اور امارت اسلامیہ کے نام پر جعلی خطوط اور اعلامیے جاری کئے جاتے ہیں۔ رواں ہفتے کے دوران کابل انتظامیہ نے امارت اسلامیہ کے نام سے دو جعلی خطوط شائع کیے۔ ایک خط میں دعوی کیا گیا تھا کہ امارت اسلامیہ جامعات ، مساجد اور عوامی مقامات پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اور دوسرے خط میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے سول کارکنوں ، صحافیوں اور سیاسی تجزیہ کاروں کو نشانہ بنانے کا پروگرام بنایا ہے۔ امارت اسلامیہ کے ترجمانوں نے وقتا فوقتا دشمن کے پروپیگنڈوں کو مسترد کیا ہے بلکہ اس کو دشمن کے مذموم مقاصد، سازشوں اور امارت اسلامیہ کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش قرار دیا ہے۔
کابل انتظامیہ کے حکام وقتا فوقتا اپنے خفیہ اداروں کے حوالہ سے مختلف افواہیں پھیلاتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے یہاں یا وہاں کسی بڑے حملے کو قبل از وقت روکا ہے یا امارت اسلامیہ حملے کی منصوبہ بندی کررہی تھی جس کو ناکام بنایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ جو ادارہ اپنے دفاتر ، رہنماوں اور ملازمین پر حملوں کو نہیں روک سکتا تو وہ کس طرح شہریوں اور سویلین اداروں پر حملے سے پہلے اس کو ناکام بنا سکتا ہے یا اس سے آگاہ ہوتا ہے؟
کابل انتظامیہ کے پروپیگنڈے کی تازہ مثال کابل یونیورسٹی پر حملہ کے بارے میں ہے، جب یہ حملہ ختم نہیں ہوا تھا، امارت اسلامیہ نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور اس کو وحشیانہ حملہ قرار دیا، مگر ایوان صدر نے مسلسل کوشش کی کہ اس حملے کو امارت اسلامیہ سے منسوب کیا جائے، حملے کے بعد انہوں نے اس حملے میں امارت اسلامیہ کے ملوث ہونے کو ظاہر کرنے کے لئے متعدد جعلسازیاں کیں۔ حالانکہ حملے کے بعد داعش کی ویب سائٹ (اعماق) نے کابل یونیورسٹی پر حملے کی ذمہ داری قبول کی اور اس نے حملہ آوروں کی تربیت کی ویڈیو فوٹیج بھی جاری کی لیکن ایوان صدر نے اصرار کیا کہ حملہ امارت اسلامیہ نے کیا ہے۔
امارت اسلامیہ کو پبلک مقامات اور تعلیمی مراکز پر حملہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر خدا نخواستہ ایسا کرتی تو اس طرح کے اہداف کو نشانہ بنانا نہایت آسان ہے، روزانہ اسی طرح کے درجنوں اہداف کو نشانہ بنایا جاسکتا تھا۔
عام خیال یہ ہے کہ کابل انتظامیہ کا موجودہ مؤقف ، اقدامات اور بیانات امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ایوان صدر امن اور مفاہمت کے موجودہ چانس کو ضائع کرنے کے لئے کسی قسم کی دہشت اور بربریت سے گریز نہیں کرتا، دیہاتوں اور مختلف مقامات پر فضائی حملوں اور بھاری ہتھیاروں کے حملوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے، متعدد اسکولوں ، مدرسوں ، مساجد ، بازاروں اور عوامی اجتماعات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ صوبہ تخار میں مسجد، ہلمند کے ضلع سنگین میں مویشی منڈی پر حملے، لوگر، میدان شہر، غزنی ، قندھار ، بدخشان ، فاریاب ، پکتیا ، کنڑ اور دیگر صوبوں میں شہری مقامات پر فضائی حملوں نے کابل انتظامیہ کے اصل چہرے کو بے نقاب کردیا اور اس کی اصل حقیقت کو آشکارا کر دیا۔
ایک ایسی حکومت جو دارالحکومت کو محفوظ بنانے میں ناکام رہتی ہے ، اپنے ہی لوگوں سے مضبوط دیواروں کے پیچھے چھپ جاتی ہے ، باہر آنے پر پورا شہر بند کردیتی ہے اور یہاں تک کہ اپنے جرنیلوں ، وزیروں ، گورنروں اور کمانڈروں کی حفاظت نہیں کرسکتی ہے۔ اگر اس کے اندر ایک کمزور افغانی جذبہ اور احساس ہوتا تو وہ ضرور استعفی دیتی، مجاہدین اور قوم کو موقع فراہم کرتی کہ وہ مظلوم عوام اور ملک کو موجودہ بحران سے نجات دلائے، بصورت دیگر وہ نہ صرف موجودہ شکست، بداعتمادی اور نفرت سے ٹارگٹ کلنگ اور پروپیگنڈے کے ذریعے خود کو بری الذمہ نہیں کرسکتی بلکہ یہ نفرت آنگیز اقدامات اور سازشیں ہی اس کے خاتمے کی سب سے مضبوط وجوہات ہوں گی۔