کابل انتظامیہ کا سکیورٹی کیمرہ کہاں ہے

آج کی بات کابل انتظامیہ کے وزیر دفاع اسد اللہ خالد نے چند روز پہلے اپنے بلند و بانگ دعووں کے سلسلے میں کہا تھا کہ افغانستان کے 60 فیصد دھرتی اور سرحدوں کی سخت سیکیورٹی کے تحت کڑی نگرانی کررہے ہیں لیکن ایک دن پہلے کابل شہر کے مرکزی چوک 20 سے زیادہ راکٹ […]

آج کی بات

کابل انتظامیہ کے وزیر دفاع اسد اللہ خالد نے چند روز پہلے اپنے بلند و بانگ دعووں کے سلسلے میں کہا تھا کہ افغانستان کے 60 فیصد دھرتی اور سرحدوں کی سخت سیکیورٹی کے تحت کڑی نگرانی کررہے ہیں لیکن ایک دن پہلے کابل شہر کے مرکزی چوک 20 سے زیادہ راکٹ فائر کیے گئے ، جس سے خالد کے بلند و بانگ دعووں کی قلعی کھل گئی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ کوئی شخص کابل کے وسط میں واقع ایک مرکزی سڑک پر راکٹ حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے ، جہاں سے وہ شہر کے مختلف علاقوں پر 23 راکٹ فائر کرتا ہے لیکن مجرم کا کوئی پتہ نہیں لگتا ہے۔
تاہم اس کے صرف دو امکانات ہیں: یا تو یہ کام اسداللہ خالد اور امراللہ صالح کے عملہ نے انجام دیا ہے جو روزانہ کی بنیاد پر کابل کے مظلوم شہریوں کے خلاف مظالم کر رہا ہے یا کسی اور کا کام ہے۔
لیکن فرض کریں کہ یہ کسی اور کا کام ہے تو اسد اللہ خالد کی 60 فیصد دوربینوں اور نگرانی کی ٹیکنالوجی کا کیا مطلب ہے؟ افغانستان کے دیگر علاقوں کا امن تو دور کی بات ہے، ملک کے دارالحکومت کابل شہر کا امن قائم نہیں کرسکتا؟
لیکن الحمد للہ افغان عوام کابل میں ہونے والے حالیہ دلخراش واقعات اور مظالم سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ سارے منصوبے صدارتی محل میں بنائے جاتے ہیں اور مذموم عزائم کے لئے اس پر عمل درآمد کیا جارہا ہے۔
افغانستان کے ان دشمنوں [جو خود یہ منصوبہ بناتے ہیں اور پھر امارت اسلامیہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں] نے قطر میں امن و استحکام کے لئے کی جانے والی کوششوں کو ناکام بنانے کا تہہ کررکھا ہے تاکہ دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ امارت اسلامیہ امن اور بین الافغان مذاکرات کے لئے پرعزم نہیں ہے۔
ایوان صدر کے مافیا کو سمجھنا چاہئے کہ امارت اسلامیہ کے امن ، سلامتی اور معقول سفارتکاری کا موقف عالمی برادری نے سنا اور قبول کیا ہے اور اس کے بعد یہ ممکن نہیں ہے کہ امارت اسلامیہ کے خلاف ان کی بار بار کی جانے والی کوششیں، سازشیں اور منصوبے کارگر ثابت ہو اور امارت اسلامیہ کے لئے باعث نقصان ہو۔