کابل شہر میں چوروں اور اغوا کاروں کی حمایت کون کرتا ہے؟

آج کی بات دارالحکومت کابل میں ایک بار پھر فتنہ اور فساد کے دور کی طرح بدامنی کی لہر آگئی ہے جو ہم سب دیکھتے اور سنتے ہیں کہ کابل شہر اسی وقت کی تصویر پیش کرتا ہے اور کابل کے شہری ہر وقت اپنی جان، مال اور عزت کے بارے میں خوف اور ہراس […]

آج کی بات
دارالحکومت کابل میں ایک بار پھر فتنہ اور فساد کے دور کی طرح بدامنی کی لہر آگئی ہے جو ہم سب دیکھتے اور سنتے ہیں کہ کابل شہر اسی وقت کی تصویر پیش کرتا ہے اور کابل کے شہری ہر وقت اپنی جان، مال اور عزت کے بارے میں خوف اور ہراس میں رہتے ہیں۔
اس وقت جب فتنہ و فساد کے دور میں شرپسند عناصر کی وجہ سے کوئی گھر سے نکلنے کے لئے تیار نہ تھا اور اب سیکورٹی فورسز کے ہزاروں اہل کاروں کی موجودگی میں سرکاری ڈاکوؤں کے خوف سے کوئی اپنے گھر سے نکلنے کی جرات نہیں کرسکتا اور یہاں تک کہ کوئی ایک موبائل اپنے پاس نہیں رکھ سکتا ہے۔
ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا لمحہ بہ لمحہ کابل شہر کے ان علاقوں روزانہ درجنوں خوفناک واقعات ، قتل ، ڈکیتی اور اغوا برائے تاوان کی خبریں شائع کرتے ہیں جہاں سیکیورٹی فورسز کے اہل کاروں کو چند چند قدم کے فاصلے پر تعینات کردیا گیا ہے۔
اس سے قبل ڈاکو تنہائی میں کسی راگیر کو نشانہ بناتا، اور سے رقم ، موبائل فون اور دیگر سامان چھین لیتا لیکن امراللہ صالح کی جانب سے کابل کی سکیورٹی سنبھالنے کے بعد دن دیہاڑے اور سکیورٹی فورسز کے سامنے گاڑیوں کو روکا اور لوگوں کو لوٹا جاتا ہے۔
ایک رکن پارلیمنٹ نے اریانا نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسا واقعہ کچھ دن قبل کابل یونیورسٹی کی خواتین عملہ ، اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ پیش آیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ بگرامی کے علاقے میں عصر کے وقت مسلح افراد نے ایک گاڑی کو روک دیا اور خواتین اور لڑکیوں سے گن پوائنٹ پر پرس، موبائل فون اور زیورات کو چھین لیا اور پولیس اہل کار 100 میٹر کے فاصلے پر انہیں دیکھ رہے تھے۔
دوسری طرف اشرف غنی کے نائب امر اللہ صالح اپنے نمائشی اقدامات کے تحت ایک ہفتہ سے سڑکوں پر چوروں کی نشاندہی کرنے کے اشتہارات شائع کر رہے ہیں اور اب یہ اطلاعات منظر عام پر آئیں کہ ان اشتہاروں میں اصلی چوروں کی بجائے زیادہ تر عام اور غیر متعلقہ لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
مصدقہ معلومات کے مطابق امراللہ صالح نے اس لئے کابل کی سیکیورٹی اور ڈاکوؤں کے خلاف قانونی کارروائی کا چارج سنبھال لیا کیونکہ اگر کوئی اور ڈاکوؤں کی کڑی نگرانی اور تفتیش شروع کرتا تو ڈاکوؤں کے اصل ٹھکانوں اور کنٹرول کے ذرائع کو بے نقاب کردیا جاتا۔ چنانچہ صالح نے پہل کی اور اس عمل میں خود کو شامل کیا اور کچھ نمائشی اقدامات اور نعروں سے سرکاری چوروں پر پردہ ڈالا جن کی براہ راست مدد صدارتی محل اور امراللہ صالح کے دفتر سے کی جاتی ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ جب تک قوم اور ملک کے مذہبی و قومی اقدار کے اصل چور ، ڈاکو، غدار اور قاتل کو ختم نہیں کیا جاتا تب تک چھوٹے منصب کے چوروں اور ڈاکوؤں کی روک تھام زیادہ کارآمد اور پائیدار ثابت نہیں ہوگی۔
اور یہ کام صرف امارت اسلامیہ کا نجات دہندہ لشکر انجام دے سکتا ہے، اور اس نے عملی طور پر یہ بات افغانوں پر ثابت کردی ہے کہ اس طرح کے ٹھگوں ، غداروں اور چوروں کو کیسے روکنا ہے اور کس طرح سزا دی جاتی ہے۔